سلام اور دعائیں
امید لیکن قائم ہے ۔۔۔ کیونکہ آواز پڑھے لکھے طبقے سے آ رہی ہے۔
ارجمند اقبال ہوں یا فرخ شہزاد، محمد جمشید ہوں یا طارق اسماعیل ساگر، حامد رضا ہوں یا عبداللہ گل، رحیق عباسی ہوں یا رِض خان۔ ۔ ۔ سب ہیں نوحہ خوان کہ “خیانت ہوئ ہے”۔
اور سب ہی رطب اللسان ہیں کہ ذی وقار جج صاحبہ نے ایک ماں ہونے کے ناطے سے ایک دوسری ماں (دھرتی) کے درد کو اپنا درد سمجھا - خیانت کی نشاندہی بھی کی اور اُسے صحیح کرنے کی سعی بھی ۔
بابا جی، ذرا عجلت میں لگے لیکن شاید یہ غوغاے چمن آخر اُن تک بھی پہنچ جاے نہیں تو یہ بھی قدرت کا ایک اٹل اصول ہے کہ “ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں”، جو چُوک گیا وہ بھی امر ہو گیا اور جو کر گیا وہ بھی کندہ ہو گیا۔
بہر حال عجب بات بھیجی عامر ہاشمی نے کہ اگر آپ ‘فائلر’ نہیں تو کار کو بھول جائیے کیونک نہیں خرید سکتے - قانوناً ۔ لیکن عوامی نمائندہ بن سکتے ہیں اور پھروزیر شذیر بن کر سرکاری ٹرانسپورٹ کے بُھلے لٹیے اور وہ بھی کسی ڈیکلریشن کے بغیر ۔۔۔ مذہب سے لے کر اقامے تک۔
ساری باتیں اُمید افزا پھر بھی شاعر کچھ بجھا بجھا سا لگا کہ پکار رہا ہے:۔
یہ راتِ بے نوید ہے مزید عرض کیا کریں
سحر کی کم اُمید ہے مزید عرض کیا کریں
اِن آندھیوں میں ہم اسیرِ بام و در ہوے، جہاں
گُھٹن بہت شدید ہے مزید عرض کیا کریں
“شکستہ ٹہنیوں پہ بھی کِھلیں گے پھول خیر سے”
شنید ہی شنید ہے مزید عرض کیا کریں
وہ حسینِ بے وطن ہے، تشنہ لبِ فرات پر
وہی صفِ یزید ہے مزید عرض کیا کریں
دلیلِ حق جو لا رہے ہیں اپنے صاحبانِ فن
سو عقل سے بعید ہے مزید عرض کیا کریں
AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com/
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz
No comments:
Post a Comment