سلام و دعا ۔ ۔ ۔
ہم وہی کچھ ہوتے ہیں، جو ہم دیکھتے ہیں۔ وہ صدیوں کا ورثہ، وہ مروت، وہ حیا و وفا، وہ وضع ۔ ۔ ۔ جو گھر سے ملا وہی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بن گیا۔
عمر ڈھل گئی، چاندی کی چمک آئ تو جسم کی لچک گئی۔ بہت تبدیلیاں رونما ہو گئیں لیکن نہ سنگتیں چھوٹیں، نہ دوستیاں ٹوٹیں۔کل ہی اپنے ایک عزیز از جان دوست کو کہہ رہا تھا کہ شاید ہم زیادہ ہی پرانی قسم کے لوگ ہیں کہ جہاں اٹکے وہیں ہمیشہ کا تعلق جوڑ لیا۔ کیا وہ لوگ زیادہ بہتر نہیں جو جذبات و احساسات کو کبھی در خود اعتنا نہیں سمجھتے۔ جہاں گیلی چادر دیکھتے ہیں وہیں سستا لیتے ہیں اور پھر نئی اوڑھنی کی تلاش میں چل نکلتے ہیں۔
اپنی پرانی سنگتوں میں سے ایک کتاب کی دوستی ہے اور کیا دوستی ہے یہ، نہ منافق، نہ بخیل اور نہ جھوٹی۔ کبھی بھی کچھ چھپاتی نہیں ہے۔ چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ بیت گیا کہ ایک بڑے نے پوچھا تھا آبِ گُم ریلوے سٹیشن پر، کتابیں پڑھتے ہو؟ کہا بیگ نہیں تھا سرہانے کے غلاف میں بھر کر لایا ہوں۔ یہ سنگت آج بھی جواں ہے اور رواں ہے۔ عادت کے مطابق سرہانے کے ساتھ پڑی ہوئ کتابوں میں سے ایک اٹھائ تو آج کل کے حالات پر یہ خوبصورت بات نظر آئ۔
ہماری بستیوں میں آ چھپے ہیں ناگ، بابا جی
اب اُن کے ذہر کا تریاق ہے بس آگ، بابا جی
سراسیمہ ہے خلقت حفظِ جان و مال کی خاطر
کہاں کی بین باباجی، کہاں کا راگ بابا جی
اِسی منظر میں تا حدِ نظر تھے پھول سرسوں کے
جہاں پھیلی ہوئ ہے نفرتوں کی آگ، بابا جی
بہت اپنے لہو سے اِس چمن کی آبیاری کی
اگر کلیاں نہیں کھلتیں، ہمارے بھاگ بابا جی
اور وہ گیلی چادر والوں کے لیے ۔ ۔ ۔
صاف کیوں نہیں کہتے
نام چاہیے تم کو
صبح کے لبادے میں
شام چاہیے تم کو
عشق ہو کہ مزدوری
دام چاہیے تم کو
AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com/
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz
No comments:
Post a Comment