AKHTAR N JANJUA

Allah created humans from a male and a female and made into tribes and nations for identification. However the most righteous is the most honoured. No Arab has any superiority over a non-Arab nor is a White any way better than a Black. All created beings are the decendants of Adam and existence of Adam sprang from dust. hence all claims to superiority and greatness, all demands for blood or ransom and all false traits or trends of rule are false.

Breaking

Sunday, July 25, 2021

5:59 PM

Mohib-Mehbub … Noor-Zulmat !

Salam and Duaien …

RasuluLlah SalLalaho Wasalam had famously said, something like “If someone from my Ahle-Bait committed the offence, I will enforce HADD against him/her the way it is enforced against others.”

Enforcement of Law requires equal and just application - It may be Sharif-e-Makkah or Jaffar Barmakki … A fugitive in UK or a murderer from USA. 



Aristotle had argued that though specific rules, laws and customs differed from place to place, what does not differ is that in all places humans by their nature, have a proclivity to make rules, law and customs. To put this in modern terms, it seems that all humans are, by some kind of biological endowment, so incredibly concerned with morality that we create a structure of laws and rules wherever we are … Therefore, the Laws and Rules exist everywhere … BUT …

The problem lies in the application of these laws and rules, different for rich and poor, varying for own and extra, distinctive for a murderer of first world citizen and a killer of 2nd-3rd world subject, diverse for a fugitive from Them and a fugitive with Them. 

The practice MUST CHANGE, if we want peace, progress and prosperity else the CHAOS shall remain the RULE … Mohibs will keep pointing the fingers and yet be welcome and ZULMAT shall keep on obliterating NOORS at will. 







AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz

Sunday, July 11, 2021

6:24 PM

حکمت کے موتی ۔ ۔ ۔


سلام اور دعائیں۔

انسانی معاشرہ قربت، رقابت،محبت، نفرت، اتفاق، نفاق، امن، فساد، عفو و در گزر اور انتقام کی ایک طويل داستان ہے۔ ہابیل  اور قابیل  دو کردار ہی نہیں بلکہ معاشرہ اُن ہی کے کرداروں پر استوار ہے۔رحمن، رحیم اور کریم اللہ سبحانہ و تعالی، تواب بھی وہی اور معاف فرمانا بھی اسی کی صفت۔ ہزاروں سال اپنے رسولوں کی ذریعے بنی نوعِ انسان کی تربیت فرمای اور خاتم النبیین، رحمتہ العالمین ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور اُن ﷺکے ذریعے  اپنی ہدایت کو مکمل فرمایا  تاکہ ہم انسان اللہ کریم کو جانیں، پہچانیں اور اپنی زندگی کو خداوندی اوامر و نواہی پر قائم کریں کہ فلاح پائیں یہاں بھی اور وہاں بھی  اور  خدای صفات کریمانہ سے خود بھی استفادہ کریں اور دوسروں کو بھی ان سے مستفید کریں جب جب ضرورت پڑے۔ 

اختتامِ وحی و رسالت کے بعد احکامِ خداوندی اور سیرتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں اللہ کریم کے بر گذیدہ بندوں نے یہ سلسلہِ رشد و ہدایت اپنے علم، حلم، قول و فعل، اور برداشت و بردباری سے جاری و ساری رکھا۔ اُنھی برگذیدہ بندوں میں سے  ایک، امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی کی روشن کتاب میں سے ایک ورق  پیشِ خدمت ہے:۔


امام رحمتہ الله علیہ ایک دن شاگردوں کے جھرمٹ میں درس و تدریس میں مشغول تھے کہ ایک طالب یونس بن عبد الاعلی کو کسی نکتے پر اختلاف ہوا۔ شاگرد اتنے رنجیدہ اور خفا ہوے کہ کلاس کو چھوڑ کر گھر چلے گئے۔

رات کو یونس کے گھر کے دروازے پر دستک ہوی، استفسار پر جواب آیا ’محمد بن ادریس‘۔یونس ہر محمد بن ادریس کو ذہن میں لاےسواے امام رح کے کہ ان کے نزدیک یہ ناممکنات میں سے تھا کہ امام اُس واقعے کے بعد ان کے گھر تشریف لاتے۔ در وا ہوا تو مبہوت رہ گئے کہ امام رح ہی بنفسِ نفیس دروازے پر موجود تھے۔امام اندر تشریف لاے اور  یونس سے فرمایا:۔

سوچا ہے کہ سینکڑوں مسائل پر ہم ایک دوسرے سے متفق ہیں پھر صرف ایک نکتہِ اختلاف نفاق کا باعث کیوں؟

ہمیں تنازعات و إختلافات میں ہمیشہ فتحیابی کے لئے ہی نہیں کوشاں رہنا  چاہیے بلکہ عارضی کیفیات و حالات کے اوپر دلوں کے جیتنے کو فوقیت دینا چاہیئے۔

شاگردِ رشید اپنے تعمیر کردہ اُن پُلوں کو کبھی مت گرنے دینا جنہیں کبھی تم نے استعمال کیا ہو گذرنے کے لئے۔ تمھیں اگر کبھی واپسی کا سفر در پیش ہوا تو وہ کام آئیں گے۔

میرے پیارےغلطی سے نفرت ضرورکرنا لیکن غلطی کرنے والے سے تعرض کبھی مت کرنا۔(اُس کی اصلاح کا موقع کھو دو گے)۔ 

 عزیز خود گناہ کے قریب بھی نہ بھٹکنا لیکن گناہ گار کے لیے اللہ کریم سے ہمیشہ رحم اور مغفرت طلب کرتے رہنا اور خود بھی اسے معاف کرنا۔ 

الفاظ میں کچھ غلط ہوا تو تقریر پر تنقیدکر لینا لیکن مقرر کا احترام کرنا نہ چھوڑنا۔ 

ہمارامطمع نظر ہمیشہ مریض کی شفا یابی اورمرض کا خاتمہ ہونا چاہیے نہ کہ مریض کی موت ۔ 

 

ایک خوبصورت سبق، بلند حوصلگی کی عمدہ مثال،اصلاح کا انمٹ جذبہ، شفقت اور محبت کی ادا، نفرت اور انتقام کے بجاے الفت و عفو، ذات کی نفی اور کردار کی بلندی سب کچھ ہے اس ایک واقعہ میں۔



الله کریم ہم سب کو بھی ایسی توفیقات عطا فرما دے۔ ٓآمین






AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz