سلام اور ڈھیروں دعائیں
ہُن انھے راجے ۔ ۔ ۔ مجبور پرجا
کوئ زیادہ پرانی بات نہیں ۔ ۔ ۔ چار پانچ عشرے پہلے، تناسبِ خواندگی اتنا ہی کم تھا جتنا کہ سکول کم تھے ۔ ۔ ۔ میں نے خود میٹرک ایک ایسے ہائ سکول (گورنمنٹ ہائ سکول بوچھال کلاں) سے کیا جو تقریبا آج کی صوبائ اسمبلی کے ایک پورے حلقے کی واحد مستند درسگاہ تھا۔
بابے اور بابیاں پڑھے لکھے نہیں ہوتے تھے لیکن گُڑھے ہوے ضرور تھے ۔ ۔ نبض شناس ۔ ۔ مشاہدے کے دھنی ۔ ۔ حالات دیکھتے اور آنے یا ہونے والے واقعات کی سو فیصد نقشہ کشی کر دیتے۔
گردا پڑا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ کہیں قتلِ ناحق ہو گیا ہے
راہی ڈھیری سے گھٹا اُٹھی ہے ۔ ۔ ۔ بارش ضرور ہو گی
دکن سے قطب ہوا چل پڑی ہے ۔ ۔ ۔ جھکڑ آندھی ضرور آئیں گے
سفید رنگ کا ایک گدھ منڈلا رہا ہے ۔ ۔ ۔ کتھے کوئ دھرنگا پیا ہویا اے
افواہ اے کہ ہلکے کتے آ گئیے نیں ۔ ۔ ۔ نیلانی دا نیل پھٹ گیا اے
کوے پیپل کے درخت پر لوٹ رہے ہیں ۔ ۔ ۔ شام پڑنے والی ہے
انوکھے لاڈلے تب بھی ہوتے تھے جو کھیلن کو مانگتے تھے چاند ۔ ۔ ۔ اُن کے لئیے بڑے بوڑھے کہتے تھے ۔ ۔ ۔
کھاون پیون چنگا دیو پر نال اذمیت (آدمیت) بھی دیو
جہڑا کُچھڑ چڑیا ڈھوے اُنہوں ڈھن دیو
مکان پر چڑھ کر نیچے چھلانگ مارنے کی دھمکی دینے والے کی مِنتیں کرتی بلکتی ماں کو کوئ بزرگ پیچھے مجمعے کے ساتھ کھینچ کر آواز لگا دیتا تھا ۔ ۔ ۔
مار چھال مینڈھیا پُترا ۔ ۔ ۔ ۔
اور پھر ۔ ۔ ۔
چلی رے چلی رے چلی ررررےےےےے،
بڑی آس لگا کر چلی رے
میں تو دیس پیا کے چلی رے
دند سے پہلے پہلے پیچھے لوٹ آنا چاہیے ۔ ۔ ۔ واپسی کے رستے بند ہو جائیں تو ۔ ۔ ۔
علاجِ چاک ِپیراہن ہوا تو اس طرح ہوگا
سیا جائے گا کانٹوں سے گریباں ہم نہ کہتے تھے
نظر لپٹی ہے شعلوں میں لہو تپتا ہے آنکھوں میں
اٹھا ہی چاہتا ہے کوئی طوفاں ہم نہ کہتے تھے
اختر جنجوعہ
No comments:
Post a Comment