سلام اور دعائیں
آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے ایک کرکٹ ایمپائر جو ایشائی ٹیموں کے ساتھ اپنے معاندانہ روئیے کے لیئے خاصی شہرتِ بد رکھتے تھے، چوری کرتے ہوے پکڑے گئے۔ جس سٹور پر ملازمت کر رہے تھے وہیں نقب بھی لگا رہے تھے۔ سچ ہے کہ چور چوری سے جاے لیکن ہیرا پھیری سے نہ جاے۔
یہ بدیسی چور کبھی پاکستانی بالروں پر "ٹیمپرنگ" کا الزام لگاتا تھا اور کبھی مُرلی کو "تھروئینگ" پر پکڑ لیتا تھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعدشراب خانے پر نوکری کرتا تھا اور جوئے خانے میں روزانہ حاضری کی بری لت کی وجہ سے خرد برد پر مجبور ہوا۔ نہ جانے کتنے میچ اس نے ’فکس‘ کیئے ہوں گے؟ لیکن دیسی چوروں پر اُسے یقینا فوقیت حاصل ہے کہ اس نے جرم قبول کیا، معافی کا خواستگار ہوا، چوری کا مال لوٹایا اور اٹھارہ ماہ کی سزا پائی۔
چور دیسی ہوں یا بدیسی سب ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہوتے ہیں ۔ چوری اِن کی سرشت ہوتی ہے اور جھوٹ اور فریب اوڑھنا بچھونا ۔ لیکن دیسی چور اضافی طور پر "نہ مانوں" کے اشتہار، شور شرابے کے ماہر، دلائل و استدلال سے کوسوں دُور ۔ یہ تلخ حقائق سے بھاگنے اور اپنے منافقانہ کرتوتوں کو چھپانے کے لیئے بے دریغ طاقت، بے سر و پا جھوٹ ، پروپپیگنڈا اور ناجائز پیسے کے استعمال کو قطعا معیوب نہیں سمجھتے ۔اسی لیئے تو اپنے یہاں کہتے ہیں ’چوری بھی اور سینہ زوری بھی‘۔
دیسی چوروں کا ایک ذہنی رویہ اور بھی ہے کہ جرم کا اقرار نہیں کرنا، انصاف پہ اصرار نہیں کرنا، سچ سے کوئی سروکار نہیں رکھنا بلکہ سچ کوطشت از بام ہونے سے روکنے کے لیئے کسی بھی ہتھکنڈے کو بروئے کار لے آنا ہے، یہ موقع کی موافقت سے اور وقت کی مناسبت سے ’دھو‘ بھی سکتے ہیں اور ’رو‘ بھی (تا کہ وہ جو کچھ کر سکتے ہیں، پکار اٹھیں "نہ رو" یعنی این آر او)۔
پیدا وہ بات کر کہ تجھے روئیں دوسرے
رونا خود اپنے حال پہ یہ زار زار کیا
اور دیسی رعایا کی حالت:۔
خدا کرے کہ سلامت رہیں ندیم مرے
تمام عمر پڑی ہے فریب کھانے کو
اختر جنجوعہ
No comments:
Post a Comment