بے یقین و ناقص العمل انسان گھاٹے میں ہے۔
ٹی وی کی سکرین چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ ۔ ۔ ۔
یہ گھڑی ہے زوال کی ۔ ۔ ۔
صدی بدل گئی ۔ ۔ ۔
فاصلے سمٹ گئیے ۔ ۔ ۔
لہریں مسخر ہو گئیں ۔ ۔ ۔
رفتار گرفتار ہو گئی ۔ ۔ ۔
لیکن ۔ ۔ ۔
سوچیں وہی قدیم اور بوسیدہ ۔ ۔ ۔
اللہ کے بتاے ہوے رستے سے انحراف، حرمتِ رسول پاکﷺ پر حملے اور ان پڑھوں کے تبصرے، حلم، علم اور انصاف کی توہین۔ ۔ ۔ نہ قاضی محفوظ نہ کوتوال کا ڈر ۔ ۔ ۔
ان اندھیروں سے نکلنے کی کوئی راہ کرو
خون دل سے کوئی مشعل ہی جلاؤ یارو
فیصلے کرنے کا صوابدیدی اختیار حضرتِ انسان کے پاس بالیقین ہے لیکن ’فیصلہ‘ بروے کار اُسی کا آتا ہے جسکا ’کُن‘ ’فیکون‘ ہوتا ہے۔
جو اُس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے،
اُس کی ہر پل موجودگی سے حیا کرتا ہے
پار وہی اُترتا ہے۔
اور جو اپنی ذات سے دھوکہ کرتا ہے اُسے بھی وہ مواقع ضرور فراہم کرتا ہے "بندہ بن جا" ۔ ۔ ۔
لیکن جو سمجھنے اور پلٹنے کی کوشش ہی نہ کرے ۔ ۔ ۔
وہ اپنے کیے کی بھرے،
کیونکہ پھر ہونے والی ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔
خساروں سے بھرے زمانے کی تاریخ یہی گنگنا رہی ہے
طوفان کی آواز تو آتی نہیں لیکن
لگتا ہے سفینے سے کہیں ڈوب رہے ہیں
. کیا ایمان والوں کے لئے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی یاد کے لئے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں اور اس حق کے لئے (بھی) جو نازل ہوا ہے اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی تھی پھر ان پر مدّت دراز گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے، اور ان میں بہت سے لوگ
نافرمان ہیں
الحدید ۔ 16
اختر جنجوعہ
No comments:
Post a Comment