AKHTAR N JANJUA

Allah created humans from a male and a female and made into tribes and nations for identification. However the most righteous is the most honoured. No Arab has any superiority over a non-Arab nor is a White any way better than a Black. All created beings are the decendants of Adam and existence of Adam sprang from dust. hence all claims to superiority and greatness, all demands for blood or ransom and all false traits or trends of rule are false.

Breaking

Saturday, May 15, 2021

12:03 PM

ہر ظلم کی توفيق ہے ظالم کی وراثت ۔ ۔ ۔

 حال کے سب “المعتصموں”# کے نام ۔۔۔

تمھارے بغداد خطرات میں گھرے ہیں۔۔ تمھیں اُمڈتے سیلاب کا ادراک ہونا چاہیے ۔۔۔ (بدقسمتی سے نہ استعداد ہے نہ ہمت)۔ تمھارے سامنےانسانوں کے روپ میں درندے دندناتے پھر رہے ہیں۔ قتل و غارت گری سے روکنا تو درکنار ٹوکنے والا بھی کوی نہیں۔ 

تم ناتواں و ضعیف کانفرنس کا اجلاس اُس وقت بلاو گے جب مظلوموں کا چالیسواں ہو گا اور ان کی سر زمین ظالم درندوں کے پاوں تلے روندی جا چکی ہو گی۔ 






مقامِ مرگ ہے کہ تمھارے اخلاق سے مبرا طبلچی یہ طبلہ بجا رہے ہیں کہ “انھیں صرف اخلاقی مدد کی ضرورت ہے” ۔۔

ہر ظلم کی توفیق ہے ظالم کی وراثت

مظلوم کے حصے میں تسلی نہ دلاسہ



(کم از کم اکٹھے ہو کر اجتماعی آواز تو بلند کر لیجیے)


جہاں تک دنیا کا تعلق ہے تو ظالموں کا رضاعی باپ اس وقت تک سلامتی کونسل کا اجلاس بھی نہیں ہونے دے گا جب تک “کام مکمل نہ ہو جاے”۔ 

شیخ سعدی علیہ رحمہ نے فرمایا تھا


جسے دوسروں کے مصائب کا احساس نہیں ہے وہ انسانیت کا غدار ہے۔ 


۔# آخری عباسی خلیفہ جس کے سامنے ہلاکو نے بغداد کو تاخت و تاراج کیا تھا۔





AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz

Friday, May 14, 2021

7:57 AM

رویتِ ہلالِ شوال المکرم ۔ کون غلط کون صیح ۔۔۔

 سلام، دعائیں اور عید مبارك۔ ۔ ۔


یہ بحث جاری ہے کہ عید کے چاند کی رویت کا اعلان صحیح تھا یا غلط اور راے تقسیم ہے۔



 

 اپنی دلیل کے حق میں ہماری قوم میانہ روی نہیں بلکہ “بُشی فلسفہ” پر کام کرتی ہے کہ 

یا تم ہمارے ساتھ ہو یا دشمن کے ساتھ


سوال یہ ہے کہ اگر شوال کے شروع ہونے کی رویت صحیح ہے تو پھر رمضان شروع ہونے کا اعلانِ رویت شاید غلط تھا کیونکہ سارے عالمِ اسلام کو اللہ کریم نے تیس دن کا رمضان عطا فرمایا تو صرف اور صرف بے چارے پاکستانی مسلمانوں کو اُنتیس دن کا   کیوں؟؟


شوال کا چاند اگر اومان کے ساتھ قربت کی وجہ سے گوادر میں اور چمن میں افغانستان  کے ساتھ  قربت کی وجہ سے اپنی رونمای کرا سکتا ہے تو آغازِ رمضان کے لیے کیوں نہیں؟


ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے  نہیں، اللہ کریم کے سامنے سرخروی کے لیے  فکر کیجیے۔





AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz

Monday, May 10, 2021

11:51 AM

غلامیِ رسول ﷺ اور علامہ اقبال رح

سلام و دعا ۔ ۔ ۔ 


ایک غلام ملک کے اقلیتی گروہ سے تعلق۔ ساری اعلی تعلیم مغرب میں اور انگ انگ میں عشقِ رسول ﷺ

اور اس غلامی پہ فخر کیونکہ “خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہِ دانشِ فرنگ”۔



 جاننے والے کہتے ہیں کہ ادھرخاتم النبیین ﷺ کا مبارک نام اپنی یا کسی اور کی زباں پر آیا وہیں رقت طاری ہو گئی۔ جھڑی لگ گئی آنسووں کی۔ 

فرماتے ہیں کہ:-

تب و تابِ بتکدہءِ عجم نرسد بسوز و گدازِ من

کہ بیک نگاہِ محمدِ عربی (ﷺ) ، گرفت حجازِ من


عجمی چمک دمک میرے سوز و گداز تک پہنچ ہی نہیں سکتی کیونکہ میرے حجاز یعنی قلب و روح کو آقا ﷺ نے ایک ہی نگاہ میں اپنا غلام بنا لیا ہے


وہ اس لیے کہ  وہ آقا ﷺ کی صحبتِ پاک سے فیض یاب ہوتے تھے اور اس کا اظہار انہوں نے اپنے ایک خط میں یوں کیا

میرا عقیدہ ہے کہ نبیِ کریم ﷺ  زندہ ہیں اور اِس زمانے کے لوگ بھی اُن کی صحبت سے اسی طرح مستفیض ہو سکتے ہیں جس طرح صحابہ رض ہوا کرتے تھے۔ لیکن اِس زمانے میں تو اس قسم کے عقائد کا اظہار بھی اکثر دماغوں کو ناگوار ہو گا، اس واسطے خاموش رہتا ہوں۔

اور یہاں جو سورہ احد پوری پڑھ نہیں سکتے ’عشق اور حرمت‘ پر آوازے کستے ہیں اور پھر بھی محمدی ہیں ۔۔۔

ارے ہاں نہیں ارے ہاں نہیں

حرفِ آخر ۔ ۔ ۔ آج ستائیس رمضان المبارک ہے اور اللہ کریم نے اس مبارک دن کو  ہمیں پاکستان عطا فرمایا تھا۔ تقاضاِ رحمت تو یہ تھا کہ ہم اسے ’اللہ والی ریاست‘، بناتے اور ہمہ وقت پکارتے کہ ’المُلکُ للہ‘۔ یہاں قانون بھی خدای ہوتا اور پاسداری بھی سرکارِ مدینہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین والی لیکن واے حسرت حکمران مسلط ہوے تو کوتاہ بین اور کوتاہ اندیش، دنیا اور اسکی شہوات کے پجاری، جنہیں نہ دین کا علم نہ وعدوں کا پاس اور رعایا اتنی مجبور و مقہور  اور سوچنے سے عاری کہ اپنے اپنے سیاہ کار  کی لوٹ مار اور بدعنوانیوں کو بھی تمغہ سمجھتے ہیں اور ان کے لیے نعرہ زن ہونا دنیوی اور دینی فلاح کا باعث۔ اب بھی وقت ہے کہ رجوع کر لیا جاے تو  بگڑی بن سکتی ہے۔


  اللہ کریم بجاہِ رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم اور اس قدر والی رات کے صدقے ہم سب پر اورپاکستان پر رحم فرماے اور ہمیں ایسا بنا دے جیسے وہ کریم چاہتا ہے ایک سچے مسلمان کا ہونا۔ آمین





AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz

Friday, April 30, 2021

12:39 PM

یومِ بدر - فضاے بدر اور ہم

سلام اور دعائیں ۔ ۔ ۔


آج یومِ بدر ہے۔


 خاتم النبیین، رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت، لاجواب قیادت بے مثال حکمتِ عملی اورسیرتِ پاک کے ہر ہر  پہلو کا امین دن۔ پختگیِ ایمان اور پسنددیگی و بیکراں رحمتِ یزداں کا شاہد یوم  اور جانثارانِ حبیبِ  رب تعالی  کے عشق و   سچائ، غیر متزلزل عقیدے،عظمتِ خلوص، لازوال جذبہِ فنا فی اللہ و رسول،عزمِ قربانی و شہادت کا نقیب دن۔ اسلامی تاریخ کا اہم ترین دن کیونکہ اگر وہ مٹھی بھر اُس دن  جان کی بازی نہ لگا دیتے، دنیاوی زندگی اور رشتوں پر ابدی زندگی اورایمان و اسلام کو اہمیت نہ دیتے تو  ۔ ۔ ۔ 


اصحابِ بدر ایمان کے اعلی ترین درجے پر فائز آسمانِ نبوت کے وہ درخشاں ستارے جو مومنوں کے لیے تا قیامت صراط    المستقیم پر چلنے کے لیے روشنی کا منبع ہیں۔ وہ یہاں سب سے بہترین تھے  اور وہاں اعلی ترین مقام کی ذینت ہیں۔ 



کاش یوم الدین کو لواء حمد کے نیچے، حوضِ کوثر کے پاس رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اصحابِ بدررضوان اللہ    اجمعین کی ایک جھلک ہمارا مقدر ہو جاے جب وہ رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلمکے حضور ایسےہی چہرہِ انور پر نگاہیں مرکوز کرکے موجود ہوں جیسے ظاہری حیات میں مسجدِ نبوی میں ہوتے تھے۔ 



علامہ رحمتہ الله علیہ نے کیا خوب فرمایا:۔


فضائے بدر پیدا کر‘ فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

اللہ کریم ہمیں یومِ بدر کی اہمیت کو جاننے اور بدر والوں کے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرما دے۔ 


آمین بجاہِ رحمتہ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم و اصحابِ بدر رضوان اللہ اجمعین۔ 






AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz

Monday, April 26, 2021

2:07 PM

بیتے دن، ہیرے لوگ، سادہ بچپن، سچے سجن اور “کل میں چھپا آج” ۔ ۔ ۔

سلام اور دعائیں ۔ ۔ ۔


پچھلے دو ہفتوں میں کتنے عزیز و اقربا و دوست راہٗی ملکِ عدم ہو گئے اور کیا لاچارگی کہ بیماری و نقاہت کے ہاتھوں اُن کے جنازوں تک میں شرکت نہ ہو سکی ۔ اللہ کریم سب جانے والوں کی مغفرت فرماے، پسماندگان کو صبرِ جمیل اور نیکیوں کی توفیق عطا فرماے کہ صدقہِ جاریہ بنیں اپنے جانے والوں کے لیے  ۔ آمین


یونہی خیالوں کی دنیا ماضی میں لے گئی، کیسے کیسے زندہ اور ہیرے لوگ اُس جگ سدھار گئے ۔ ۔ ۔ جن کے بغیر  محفلیں نہیں سجتی تھیں، جن کی باتوں سے زندگی پھوٹتی تھی جو اپنی ذات میں انجمن تھے۔


۔ ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘۔


خیالوں کی وادي میں یونہی دور چلا گیا اور گاوں کی سادہ لیکن سنہری زندگی کے پرت الٹتے گئے ۔ ۔ ۔


اپنے ماضی کی جستجو میں بہار

پیلے پتے تلاش کرتی ہے






دوستو یادوں کی قوس و قزح ہے۔۔۔  یاد ہے ذرا ذرا ۔۔۔ سادہ بچپن، سچے سنگی، سنہرے لوگ، گاوں کیا تھے یونانیسٹی سٹیٹ تھے، بانٹی ہوی ذمہ داریاں، اخوت، بھای چارہ، حیا اور غیرت، دشمنی کے بھی اصول ۔۔ کیا وقت تھا۔ہر یاد ایک حکمت بھری داستاندرد سانجھے، خوشیاں سانجھیں، بڑوں کی عقابی تو چھوٹوں کی جھکی ہوینگاہیں۔  برا اور برای دور سے پہچانے جاتے تھے۔ ہر کردار یکتا اور منفرد۔ 


ہمارے بچپن میں گاؤں میں ایک بزرگ ہوتے تھے  (اللہ کریم مغفرت فرماے)۔ مرحوم ایک کثیر الجہت شخصیت تھے ۔ 


جوانی میںلمی کوڈی” کے “وڈے کھڈیارتھے۔ 


کوی بھی اعلان کرنا ہوتا (لاوڈ سپیکر نام کی چیز کا وجود تب نہیں تھاتو ۰ہوکا۰ وہ ہی مسجد میں کھڑے ہوکر دیتے تھے،   اپنے گاؤں کے علاوہ اُن کی گونج دار آواز ساتھ والے کئی گاوں تک سنای دیتی تھی۔ 


سوانگ بھی خوب بھرتے تھے۔ 


ہیر وارث شاہ گاتے تو سماں بندھ جاتا تھا۔ 


ماہیا بھی گاتے تھے، وزن سے مبرا لیکن انتہای معنی خیز۔ ہم لڑکے بالے خوب لطف اندوز ہوتے اور دیر تککھلکھلا کر ہنستے رہتے تھے بابا جی خود بھی “مرُکنے مرُکنے” مسکراتے رہتے تھے۔ لیکن اب جب ہم خود بابا جی ہیں تو ارد گرد کے حالات کا مشاہدہ  باباجی کے ماہیوں میں چھپا سچ بالکل عیاں کر رہا ہے۔ 


لیجیے آپ بھی غور فرمائیے۔ بابا جی کے ماہئیے کچھ مندرجہ ذیل ماہیوں جیسے ہوتے تھے ۔ ۔ ۔ لیکن پہلے ایک مشہور کہاوت جو وہ اکثر  حالات کی ترجمانی کرتے ہوے دہرایا کرتے تھے (فی زمانہ تو شاید یہ بڑا سچ ہے) ’بندہ میں بہوں ڈاہڈا آں، لسے آں تک کے مینڈھا دل کریندا اُساں کچا کھا ونجاں پر پتہ نٗئیں کے گل اے ڈاہڈے آں تک کے مانھ ہاسا کیوں آ ویندا اے‘ :-


ام لگے پھلائیاں تے۔ 

بد نسلیاں چوچیاں پرتھ ماری اصیلاں دی۔ 


داند چڑھیا چوبارے تے۔ 

کمادے دا گڑ بنیا ہن گنے چوپو جواری دے۔ 


کوٹھے تے اُٹھ بیٹھے۔ 

جس گھر وڑیئے سارے ٹبرے آں دھا پوئیے۔ 


ہوکا سن لو ہوکا۔ 

شکل بنا کے ساہواں دی گدڑ چھلیاں کھا گئے نیں۔ 


دھدی پھیتا کھیڈدے او۔ 

سُکے منگا گھنو، سانھکاں بھج گئیاں نیں۔ 



کیا بات تھی بیتے دنوں کی، کاش لوٹ سکتے۔ ۔ ۔ 

وہ ان پڑھ مگر گُُھڑے ہوے لوگ اوراُن کی حکمت بھری باتیں، وہ سچ، وہ سادگی، وہ سنگی، وہ دکھ سکھ کا ساتھ، وہ بڑے دل اور کھلے ھُڑے ۔۔ وہ کوڈی، وہ چھپن چھوت،وہ اِٹی ڈنڈا،وہ دُھدی پھِیتا،وہ           پھلے اور کھلاڑے۔ وہ ترینگل اور کراھیاں،وہ ڈھول اور ونگاراں ۔۔۔ کہاں تک گنیں ۔۔۔ 


سَندر اور چیزیں بھی گئیں، وہ لوگ بھی گئے اور جو باقی ہیں انھوں نے کُوچ کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ 


نہ چھیڑ بیتے زمانے کے ساز اے مطرب

ہیں اُس کی یاد سے وابستہ صحبتیں کیا کیا


اللہ کریم جانے والوں کی مغفرت فرماے، موجود کو دین و ایمان اور اصولوں والی زندگی اپنانے اور اُس پر قائم رھنے اور روایات و ثقافت کو جاننے اور استوار کرنے کی توفیق عطا فرماے۔ آمین






AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz
https://www.youtube.com/channel/UCcWozYlUgu-bkQU_YcPoxTg?view_as=subscriber