AKHTAR N JANJUA

Allah created humans from a male and a female and made into tribes and nations for identification. However the most righteous is the most honoured. No Arab has any superiority over a non-Arab nor is a White any way better than a Black. All created beings are the decendants of Adam and existence of Adam sprang from dust. hence all claims to superiority and greatness, all demands for blood or ransom and all false traits or trends of rule are false.

Breaking

Monday, April 26, 2021

بیتے دن، ہیرے لوگ، سادہ بچپن، سچے سجن اور “کل میں چھپا آج” ۔ ۔ ۔

سلام اور دعائیں ۔ ۔ ۔


پچھلے دو ہفتوں میں کتنے عزیز و اقربا و دوست راہٗی ملکِ عدم ہو گئے اور کیا لاچارگی کہ بیماری و نقاہت کے ہاتھوں اُن کے جنازوں تک میں شرکت نہ ہو سکی ۔ اللہ کریم سب جانے والوں کی مغفرت فرماے، پسماندگان کو صبرِ جمیل اور نیکیوں کی توفیق عطا فرماے کہ صدقہِ جاریہ بنیں اپنے جانے والوں کے لیے  ۔ آمین


یونہی خیالوں کی دنیا ماضی میں لے گئی، کیسے کیسے زندہ اور ہیرے لوگ اُس جگ سدھار گئے ۔ ۔ ۔ جن کے بغیر  محفلیں نہیں سجتی تھیں، جن کی باتوں سے زندگی پھوٹتی تھی جو اپنی ذات میں انجمن تھے۔


۔ ’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاے گا جب لاد چلے گا بنجارا‘۔


خیالوں کی وادي میں یونہی دور چلا گیا اور گاوں کی سادہ لیکن سنہری زندگی کے پرت الٹتے گئے ۔ ۔ ۔


اپنے ماضی کی جستجو میں بہار

پیلے پتے تلاش کرتی ہے






دوستو یادوں کی قوس و قزح ہے۔۔۔  یاد ہے ذرا ذرا ۔۔۔ سادہ بچپن، سچے سنگی، سنہرے لوگ، گاوں کیا تھے یونانیسٹی سٹیٹ تھے، بانٹی ہوی ذمہ داریاں، اخوت، بھای چارہ، حیا اور غیرت، دشمنی کے بھی اصول ۔۔ کیا وقت تھا۔ہر یاد ایک حکمت بھری داستاندرد سانجھے، خوشیاں سانجھیں، بڑوں کی عقابی تو چھوٹوں کی جھکی ہوینگاہیں۔  برا اور برای دور سے پہچانے جاتے تھے۔ ہر کردار یکتا اور منفرد۔ 


ہمارے بچپن میں گاؤں میں ایک بزرگ ہوتے تھے  (اللہ کریم مغفرت فرماے)۔ مرحوم ایک کثیر الجہت شخصیت تھے ۔ 


جوانی میںلمی کوڈی” کے “وڈے کھڈیارتھے۔ 


کوی بھی اعلان کرنا ہوتا (لاوڈ سپیکر نام کی چیز کا وجود تب نہیں تھاتو ۰ہوکا۰ وہ ہی مسجد میں کھڑے ہوکر دیتے تھے،   اپنے گاؤں کے علاوہ اُن کی گونج دار آواز ساتھ والے کئی گاوں تک سنای دیتی تھی۔ 


سوانگ بھی خوب بھرتے تھے۔ 


ہیر وارث شاہ گاتے تو سماں بندھ جاتا تھا۔ 


ماہیا بھی گاتے تھے، وزن سے مبرا لیکن انتہای معنی خیز۔ ہم لڑکے بالے خوب لطف اندوز ہوتے اور دیر تککھلکھلا کر ہنستے رہتے تھے بابا جی خود بھی “مرُکنے مرُکنے” مسکراتے رہتے تھے۔ لیکن اب جب ہم خود بابا جی ہیں تو ارد گرد کے حالات کا مشاہدہ  باباجی کے ماہیوں میں چھپا سچ بالکل عیاں کر رہا ہے۔ 


لیجیے آپ بھی غور فرمائیے۔ بابا جی کے ماہئیے کچھ مندرجہ ذیل ماہیوں جیسے ہوتے تھے ۔ ۔ ۔ لیکن پہلے ایک مشہور کہاوت جو وہ اکثر  حالات کی ترجمانی کرتے ہوے دہرایا کرتے تھے (فی زمانہ تو شاید یہ بڑا سچ ہے) ’بندہ میں بہوں ڈاہڈا آں، لسے آں تک کے مینڈھا دل کریندا اُساں کچا کھا ونجاں پر پتہ نٗئیں کے گل اے ڈاہڈے آں تک کے مانھ ہاسا کیوں آ ویندا اے‘ :-


ام لگے پھلائیاں تے۔ 

بد نسلیاں چوچیاں پرتھ ماری اصیلاں دی۔ 


داند چڑھیا چوبارے تے۔ 

کمادے دا گڑ بنیا ہن گنے چوپو جواری دے۔ 


کوٹھے تے اُٹھ بیٹھے۔ 

جس گھر وڑیئے سارے ٹبرے آں دھا پوئیے۔ 


ہوکا سن لو ہوکا۔ 

شکل بنا کے ساہواں دی گدڑ چھلیاں کھا گئے نیں۔ 


دھدی پھیتا کھیڈدے او۔ 

سُکے منگا گھنو، سانھکاں بھج گئیاں نیں۔ 



کیا بات تھی بیتے دنوں کی، کاش لوٹ سکتے۔ ۔ ۔ 

وہ ان پڑھ مگر گُُھڑے ہوے لوگ اوراُن کی حکمت بھری باتیں، وہ سچ، وہ سادگی، وہ سنگی، وہ دکھ سکھ کا ساتھ، وہ بڑے دل اور کھلے ھُڑے ۔۔ وہ کوڈی، وہ چھپن چھوت،وہ اِٹی ڈنڈا،وہ دُھدی پھِیتا،وہ           پھلے اور کھلاڑے۔ وہ ترینگل اور کراھیاں،وہ ڈھول اور ونگاراں ۔۔۔ کہاں تک گنیں ۔۔۔ 


سَندر اور چیزیں بھی گئیں، وہ لوگ بھی گئے اور جو باقی ہیں انھوں نے کُوچ کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ 


نہ چھیڑ بیتے زمانے کے ساز اے مطرب

ہیں اُس کی یاد سے وابستہ صحبتیں کیا کیا


اللہ کریم جانے والوں کی مغفرت فرماے، موجود کو دین و ایمان اور اصولوں والی زندگی اپنانے اور اُس پر قائم رھنے اور روایات و ثقافت کو جاننے اور استوار کرنے کی توفیق عطا فرماے۔ آمین






AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz
https://www.youtube.com/channel/UCcWozYlUgu-bkQU_YcPoxTg?view_as=subscriber

No comments: