ابھی تک کی زندگی کے دو تہای جستجُو میں گذر چکے۔ بڑے لوگوں کی بڑی کتابیں کھنگال ڈالیں، محافل، مجالس، مذاکرے، بہت کچھ سنا، سیکھا اور پرکھا، جو سمجھ آی اُسے بتانے سنانے میں کبھی تامل نہیں کیا۔ جہاں کسی “پہنچے ہوے” کا پتہ چلا، جا دھمکے۔ صاحبانِ حکمت، اصلی، نسلی، فصلی، سات کے، تین سو ساٹھ کے، کاٹھ کے تمام سے شرف حاصل ہوا، علم والے، حلم والے، شعبدہ باز، رنگساز، بردبار، ریاکار سب نے کمال شفقت فرمای۔ کچھ کو نزدیک سے دیکھا تو گھن آی، بعض سے بن آی، کہیں عقیدت پڑھی تو کہیں ٹوٹ گئی ساری لڑی۔
ایک لیکن بلکل علیحدہ۔ جذبی، جلالی، رمزوں میں گفتگو لیکن باکمال۔
یاروں کو یاد ہو تو میں نے شئیر کیا تھا جو انہوں نے جنوری میں کہا تھا،
“سُنو مارچ میں مارچ ہو گا۔ چوتھے میں چوتھا ہو جاے گا۔ آے گی مئی تو بد بُو دے گی لئی اور خون چوسے گا جُون۔”
کل فرصت ملی تو رات کو فون لگایا، عادت کے خلاف فوراً اُٹھایا اور فرمایا:-
چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگشتم آخر
نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں
نوٹ کرنے کی اجازت ہے، بولے لکھو لکھاتا ہوں۔
کہا قبلہ کس کا ہے؟ حضرت نظام الدین اولیا رح کے مریدِخاص، جن کی اپنے مرشد کے لیے عقیدت، عشق کی حد تک تھی ۔۔۔ حضرت امیر خسرو رح کا۔
حال چال پوچھا تو گویا ہوے کہ اتنا عرصہ بیت گیا، بہت مصروف ہو۔ نہیں قبلہ یاروں کے ساتھ دو بجے میدان میں ہوتا ہوں جس پہ کسی دل جلے نے کہا ہے کہ “ان کی عمریں دیکھو اور ان کے کرتوت دیکھو- تپتے اڑھای پہر اور ان کی گیم” اور ہمارے کرتوت کیا ہیں، کچھ گیم، تھوڑی گپ اور سوال، کے بنسی؟
آپ سے بھی یہی سوال ہے، کے بنسی؟ کہا جون تک تو بتلایا تھا، سُن جولای میں دھلای موسلادار ہو گی۔ اکست مست ہو گا دمادم، ستمبر سچائیاں سامنے لاے گا تو چٹائیاں بھچیں گی۔ اکتوبر میں اللہ کریم جو واحد متکبر ہے غرور توڑ دے گا ۔۔۔ لیکن۔۔۔
لیکن کیا؟ عرض کیا
لیکن سات دہائیوں سے صرف اپنی ذات اور خاندان کی ترویج و ترقی منشا، ظالمانہ، جاہلانہ، بہیمانہ، معاندانہ، جابرانہ، ناعاقبت اندیشانہ، ناانصافانہ، غیر انسانہ، ناخوفیِ یزدانہ والی رسومات و روایات کا ارتقا کیا ہے مل کے تمام کرتاوں دھرتاوں نے انہیں مکافاتِ اعمال کے بطور ان پر اور ان کی آنے والی سات نسلوں پر لاگو کرنے کے لیے صدیاں درکار ہوں گی۔ معاف بھی کر دیا جاے تو چار نسلوں کی تربیتِ مسلسل بتدریج کرنی ہوگی تب کہیں روشن صراطِ مستقیم پر گامزن ہوں گے۔
اور فون بند ۔۔۔
پتھر کے جسم موم کے چہرے دھواں دھواں
کس شہر میں اڑا کر ہوا لے گیئ مجھے
Akhtar N Janjua
http://anjanjua.blogspot.com
https://twitter.com/IbneNawaz
No comments:
Post a Comment