سلام اور دعا۔
آج کے اخبارات، ادارئیے، کالم اور سوشل میڈیا، سب "پاکستان، عزت، اقتدار اور کاروبار" کے ارد گرد ہی طواف کرتے نظر آے:۔
ارشاد احمد عارف کا ’کیسی بلندی، کیسی پستی ہو‘ یا مجاہد بریلوی کا ’۔۔۔ثبوت۔۔۔؟‘سہیل وڑائچ کا ’میں کیوں مانوں؟‘ یا رووف کلاسرہ کا ’ایک دفعہ پھر ۔ ۔ ۔ ‘بابر ستار ہوں یا ایاز امیر، کامران خان ہوں یا ندیم ملک ۔ ۔ ۔ سب انہی چار الفاظ کےگھیرے میں۔
ہم سب کے لیئے ’پاکستان‘ سب سے پہلے ہونا چاہیئے اور ذات، بھات اور کُتر کاٹ سب سے آخر ۔ ۔ کیوں کہ۔ ۔ ۔ ۔ پاکستان ہے تو ہم ہیں۔ ۔ ۔ ۔ لیکن بدقسمتی سے چلی ہے رسم کہ ۔ ۔ ۔ ۔ہم ہیں تو پاکستان ہے۔ ۔ ۔اور یہی سب خرابیوں کی جڑ ہے۔۔
عزت ۔ ۔ ۔ بڑی چیز ہے ۔ ۔ ۔اِس کی لاج ضرور رہنی چاہیئے ۔ ۔ ۔ لیکن پنجابی کا ایک ’اکھان‘ ہے "پت ماری کھلے توں"۔ ۔ ۔
یار دلدار تجھے کیسا چاہیئے
پیار چاہیئے یا پیسا چاہیئے
یار دلدار تیرا جیسا چاہیئے
پیار کے لیئے مگر پیسا چاہیئے
یہاں :۔
آنے والی پشتوں تک ہمیں کاروبار چاہیئے
اور کاروبار کے لیئے اقتدار چاہیئے
اختر جنجوعہ
No comments:
Post a Comment