جب ہم غبار میں گھرے ہوے ہوں تو لاچار اس خیال سے کہ اُڑتی ہوئ دُھول آنکھوں یا منہ میں نہ پڑ جاے، ہم چہرہ ڈھانپ لیتے ہیں۔
یہی کیفیت ماضی کے کرتوتوں اور مستقبل کے ارمانوں کی ہے۔۔ آج دونوں غبار کی طرح ہمارے حال پر چھاپے ہوے ہیں اور اُسے گرد آلور کر رہے ہیں۔
ہماری عمر (یعنی حال) انہی 'کرتوتوں اور ارمانوں ' کے گرداب میں ضائع ہو رہی ہے۔
ہمیں چاہئیے کہ دلوں کی بستیوں کو نہ اُجڑنے دیں اور انا، خود غرضی، لوٹ کھسوٹ اور جھوٹ کے بتوں کو گرا دیں۔
اِک دل ہے کہ اُجڑ جاے تو بستا ہی نہیں
اِک بُت خانہ ہے، اُجڑے تو حرم ہوتا ہے
اختر نواز جنجوعہ
No comments:
Post a Comment