وطن کی مٹی گواہ رہنا ۔۔۔
کھای ہے قسم سب نے
حلف پابند کرتا ہے
لاکھ قیامتیں ٹوٹ پڑیں
وطن سے کبھی دغا نہ کرنا
وطن کی مٹی ماں برابر
اس کی دھرتی مان ہے اپنا
علم اٹھاے آذادی کا
آن پہ اس کی شان سے مرنا۔
کیسا یارو وقت ہے آیا
بدلے سب اصول یہاں پر
ابلیسی کرتوتوں کو “فضلِ ربی” کہتے ہیں
بھول گئے ہیں “ جیسا کرنا ویسا بھرنا”
کیسے کیسے حاجی ہیں
کتنے بڑے زوار ہیں بھیا
ڈوبتی نیا، اندھے کِھویا
“نہ جاے ماندن نہ پاے رفتن”
شرم و حیا کی چتا اٹھاے ۔۔۔
دوزخ پڑے گا سڑنا
وطن کی مٹی گواہ رہنا
تیرے جانثار بے شمار
بے قرار
تیری بے توقیری پہ افسردہ
اک دن توڑیں گے زنجیریں،
تیرا مان نہ توڑیں گے
تیرے لیے جینا ان کا
تیرے لیے ہے مرنا
وطن کی مٹی گواہ رہنا
No comments:
Post a Comment