سجنو تے بیلییو ۔ سلامتئِ جان و مال و عزت و عیال کے لئے ڈھیروں دعائیں۔
حالات و واقعاتِ عصری ماضی کی وادیوں میں پانچ چھ عشرے پیچھے لے گئے۔ کیسے ادوار و اطوار و کردار بدل گئے ہیں۔ ’تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا‘۔لیکن چھوڑیئے یہ تو ہم سب دیکھ بھی رہے ہیں اور بُھگت بھی۔
بات کرتے ہیں ایسی جو سچی بھی ہو اور اُس میں سبق بھی ہو سوچ والوں کے لئے۔
سادہ زمانے، سادہ غذائیں، جفا کش و کسرتی لوگ۔ کھیڈیں بھی سادی اور زندگی سے بھرپور۔ بچےکھیلتے تھے،بنٹے، اخروٹ، اِٹی ڈنڈا، چھپن چھوت، دھدی پھیتا تے گاڈی چلوت۔
بڑوں کی کھیڈیں بھی بڑی ہوتی تھیں۔ وٹا چُکنا، گولہ سُٹنا،جپھا گھتنا، ہڑپہ مارنہ تے کبڈی (اس وقت دی کوڈی تے کوڈی وی لمی کوڈی)۔
بھایئوں کی ایک جوڑی بڑی مشہور تھی دور دور تک۔ کھیلتے بھی تھے، مارتے بھی تھے اور ہر حال میں جیتتے بھی تھے۔
دور و نزدیک میں ان کا کوی مقابل ہی نہیں تھا۔ پِڑ لگتے تھے، ڈھول بجتے تھے، جوڑیاں آتی تھیں، مار کھاتی تھیں، ہاتھ ملاتی تھیں اور پھر آنے کے لیے چلی جاتی تھیں۔
اس دوران ایک گاوں (میرے اپنے گاوں) سے نوجوان بھائیوں کی ایک جوڑی کا چرچا ہونے لگا کہ باری بھی اچھی لیتے تھے، تھپڑ کھاتے بھی تھے اور چنڈیں مارتے بھی خوب تھے۔ جہاں تک پکڑنے کا تعلق تھا تو کوی بچ نہیں سکتا تھا۔ پکڑ لیتے تھے تو سامنے والے کھڈیار کو بتلا دیتے تھے کہ ’جندرا لگ گیا ای تے کنجیاں لاہور نی‘۔
مشہوری ہوی تو منی پرونی وڈی جوڑی تک گل پہنچی۔ حیرانی بھی اور پریشانی بھی کہ ایہہ کتھوں آ گئے نیں۔
چیلنج آ گیا۔ دن بندھ گیا، منادی ہو گئی، پورا علاقہ آ گیا۔
پڑ لگ گیا، گولہ وج گیا، وڈی ٹیم دے وڈے کھلاڑی آکھیا آو بچیو مینوں پکڑو جے پکڑ سکدے او۔ پٹ تے ہتھ مار کے آگے ہوا تو نوجوان پل پڑے اور منٹوں میں ڈھا لیا۔
اب باری دوسری جوڑی کی آی تو بڑا نوجوان باٹ دینے کے لئے میداں میں آ گیا اور پرانی ٹیم کے دونوں بھای اسے ڈھیر کرنے کے لیے نکلے۔ نوجوان قد آور بھی تھا اور بہادر بھی، اس نے دونوں ہاتھوں سے پکڑنے والوں پر تھپڑوں کی یوں برسات کی کہ پل میں سماں تبدیل ہو گیا۔ یہ آگے ہوں وہ مارنے کے لیے بازو اٹھاے تو یہ جھجھک کر کھڑے ہو جائیں۔ کچھ دیر جب یوں ہی ہوتا رہا تو اچانک ایک بارعب بزرگ اٹھے اور انہوں نے آواز لگای ذرا رکو۔
تینوں کھڈیار کھڑے ہو گئے، بزرگ میدان میں گئے، سر سے پگ اتاری اور اس نوجواں کھلارٰی کے ہاتھ اور پاوں باندھ دیئے۔ پرانے کھلاڑیوں کو کہا اسے ویسے تو پکڑنا تمھارے لیے ناممکن ہے اب اس کے ہاتھ اور پاوں بندھے ہیں اب گرا لو۔
حیا اور وفا والا ذمانہ تھا۔ وہ آگے بڑھے نوجوان کو جپھا ڈالا، اس کا ہاتھ کھڑا کیا اور اپنے لنگوٹ کھول دیے کہ ’اج توں ساڈی بس‘ ہن تسی کوڈی کھیڈسو تے اسیں تہانوں کھیڈدیاں تکساں۔
لیکن تب تب تھا اور اب اب ہے۔
مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ رُوپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اُجڑ گیا میں اُسی کی فصلِ بہار ہوں
Akhtar N Janjua
http://anjanjua.blogspot.com
https://twitter.com/IbneNawaz
No comments:
Post a Comment