AKHTAR N JANJUA

Allah created humans from a male and a female and made into tribes and nations for identification. However the most righteous is the most honoured. No Arab has any superiority over a non-Arab nor is a White any way better than a Black. All created beings are the decendants of Adam and existence of Adam sprang from dust. hence all claims to superiority and greatness, all demands for blood or ransom and all false traits or trends of rule are false.

Breaking

Monday, May 21, 2018

عزیزانِ گرامی قدر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سلام اور دعائیں۔ 
ماہِ مقدس میں لکھنا مشکل کام ہے، ناجائز کسی کے خلاف یا حق میں بولنا یا لکھنا روحِ رمضان  کے منافی ہو سکتا ہے۔ اجتناب جہاں تک ممکن ہو ضروری ہے۔

برا ہو مگر خود غرضی اور ہوسِ اقتدار کا کہ قومی سلامتی بھی سیاست کی نظر ہو رہی ہے۔ ہر کوئ نشانے پر ہے، خواہش ہے تو بس اتنی کہ "گلیاں ہوون سنجیاں وچ مرزا یار پھرے"۔

اہلِ دانش منقسم ہیں

اہلِ راے خوفزدہ ہیں

رعایا مجبور ہے

بیرونی دشمن شاداں و فرحاں ہے کہ جو وہ نہ کر سکا وہ اندرونی کر رہے ہیں۔ یقین نہ آے تو کل کا ’اُن‘ کا بیان دوبارہ  پڑھ لیجیے۔

بین الاقوامی سطح پر بھی مسلمان ہی مجبور و مقہور و مغضوب ہے لیکن نیرو کی بانسریا بجے جا رہی ہے، "نیل کے ساحل سے لے کر تا بخاکِ کاشغر"۔

کرم و فیوضاتِ رمضان کے ساتھ ساتھ بہت سارے سوالات بھی ذہن میں طوفان اُٹھاے رکھتے ہیں، کل تو  میرے بھای آغا فاروق نے فیس بک جیسے فورم پر سوال اٹھا دیاہےکہ، "خداے بزرگ و برتر"، کیوں نہیں آ رہا مدد کو مجبوروں کی؟؟؟؟۔

جواب کی تلاش اچانک یہاں لے آئ اور جو چیز ہاتھ آئ سوچا کیوں نہ لگے ہاتھوں دوستوں سے بھی  شیئر کر لی جاے۔ ۔ ۔  تو عزیزانِ گرامی قدر:۔

عزیزانِ گرامی قدر
اکثر واقعاتِ کربلا سُن کر
ہمارا دل پگھلتا ہے
ہمارا بس نہیں چلتا کہ ماہ و سال کا پہیہ
گھما کر تیز تر ’معکوس‘ جا پہنچیں
کنارِ آب جوے نینوا، خنجر بکف، تنہا
صفِ اعدا کے آگے جا کے للکاریں، کہ آو ظالمو دیکھو
حسین ابنِ علی تنہا نہیں
اِس معرکے میں ہم بھی مثلِ خاکِ پاے سیدِ ابرار شامل ہیں
ہمیں بھی افتخارِخدمتِ شبیر حاصل ہے
ہمیں بے وقعت و بے نام مت جانو
ہمارا جذبہِٗ ایمان کامل ہے

لیکن
یقینا یہ  صدائے حق
امیرِ لشکرِ باطل کو نا مرغوب تر ہوتی
سو انجامِ تنِ خستہ، عزیزانِ گرامی قدر ظاہر ہے

اِسی انجام کے ڈر سے
عزیزانِ گرامی قدر

چودہ سو برس سے ہم
ردائے خامشی اوڑھے
لبوں پہ قفل ہائے مصلحت ڈالے
ہر عہدِ ناروا کے جبر و استبداد کے آگے
نگوں سر ہیں

اگر لب کھولتے بھی ہیں
اگر کچھ بولتے بھی ہیں

تو رنگِ سرخئیِ رخسارِ جاناں کے  حوالے سے
وصالِ یار، جشنِ موسمِ گُل، مدحتِ شاہاں
یہی بس اپنے موضوعاتِ فکر و فن کے  دھارے ہیں


جہاں دن ہونکتے ہیں، اور راتیں آہ بھرتی ہیں
وہیں خیمے ہمارے ہیں

ہم اہلِ بیت کی تقلید میں، ہر ظلم کے آگے
مثالِ کوہ، ڈٹ جانے کی خواہش دل میں رکھتے ہیں
مگر اپنی بیاضیں حاکمِ اعلی کی اُس محفل میں رکھتے ہیں

جہاں ہم جیسے کچھ راگی
سخن کی انجمن میں راگنے والے
شکستہ جان و تن پر جبر کر کے جاگنے والے
لفافوں کے تعاقب میں، ہمیشہ بھاگنے والے

سخن پیشہ،اپاہج، طالبانِ داد و  زر، الفاظ کے تاجر
غبارِ ماہ  و سال میں اپنا بستہ چھوڑ آے ہیں
جدھر کا قصد  آغازِ سفر کی شرط ٹھرا تھا

اُسی منزل، اُسی بستی کا رستہ چھوڑ آے ہیں
سو انجامِ تنِ خستہ عزیزانِ گرامی قدر ظاہر ہے



لیکن ابھی امید باقی ہے کیونکہ وطن کے بچے وطن کی خاطر اپنے لہو سے روز ایک نئی  تحریر رقم کر رہے ہیں ۔۔۔ ایک سہیل عابدنہیں ہزاروں ۔ ۔ ۔ اُن کی  قبروں پر لگا قومی پرچم لہلہا کر کہہ رہا  ہے:۔

چلو ہنر مند، ہنر آزمائیں
تم تیر آزماو ہم جگر آزمائیں





AKHTAR N JANJUA

http://anjanjua.blogspot.com/
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz
janjua17686.wordpress.com


No comments: