سلام اور دعائیں ۔۔۔
قوم کے دو اور نونہال ارضِ پاک کو اپنے لہو سے گلاب رنگ کر گئے ۔۔۔
عبدالمعید کو بشارت ہو کہ المعید نے اُسے اپنا بنا کر لافانی زندگی دے دی ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔
بشارت کو نوید ہو کہ عبدالمعید کا ساتھ بھی ہمیشہ کا، المعید کا کرم بھی ابدی ۔۔۔ اور ۔۔۔
“رسولِ پاک صلی اللہ علیہِ وسلم نے بانہوں میں لے لیا ہو گا۔ “
شہیدوں کو سلام
غازیوں کو سلام
ان کے والدین اور اہلِ خاندان کو سلام
اور یہ بھی سچ کہ ‘آذادی کی قیمت تو چکانا پڑتی ہے’ ۔۔۔
عجب تیری دنیا کا دستور دیکھا ۔۔۔
کوی سر کٹا کر قیمت چکاتا ہے ۔۔۔
کوئ مال بنا کر ناک کٹواتا ہے ۔۔۔
حلف دونوں لیتے ہیں گلشن کے تحفظ کا ۔۔۔
ایک اُس حلف کا عَلم بلند رکھتے ہوے گلشن پر واری ہو جاتا ہے
دوسرا حلف کی لاج کو پاؤں کے نیچے روندتے ہوے گلشن کو نوچ کر اشتہاری ہو جاتا ہے
ایک کو سلامی دی جاتی ہے
دوسرے کی غلامی کی جاتی ہے
آزادی کی قیمت ادا کرنے والے دشنام کی زد میں لگاتار
آزادی کا فائدہ اُٹھانے والے ریاست کے ملزمان پروٹوکول کے حقدار
ایک طرف غریبوں کی نابغہِ روزگار اولادیں ہڈیوں میں اُترتی سردی اور جسم کو جھلساتی گرمی میں مادرِ وطن کے دفاع کے لئے ہر دم تیار ۔ ۔ ۔
اوردوسری طرف چالیس گاڑیوں کے جلو میں دندناتے ناخلف و نالائق و نابکار ۔ ۔ ۔
لیکن کب تلک ؟؟؟؟؟
وقت پکار رہا ہے ۔۔۔
جھوٹ اور لوٹ کو دفنانا ہو گا
سچ اور راستی کو اپنانا ہو گا
پاک سر زمین کو دہشت گردوں سے ہمیشہ کے لئے ختم کرنا ہو گا
اِن کے سہولت کاروں کو ڈھونڈھ کر بھسم کرنا ہو گا
بیرونی دشمنوں کے اندرونی دوستوں کو پہچاننا ہو گا
جو غلط ہے اُسے غلط ماننا ہو گا
وطن سلامت
یا
بطن سلامت
؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
ENOUGH IS ENOUGH ...
Akhtar N Janjua
No comments:
Post a Comment