نظام ۔۔۔
لاکھ گندا کرو بالکل ننگا کرو
ہونا کچھ نہیں۔
کُچلنا ہو گا، بدلنا ہو گا
مکے لے جانا ہو گا
ازم زم سے نہلانا ہو گا
شاید اس کے قلب پر لگی مہریں اور کردار پر لگی کالک دھل سکے ۔۔
خیر بات لمبی ہوتی جاری ہے اور لمبی پڑھنے اور سننے کی توفیق آج کل معدوم۔
رات کو ایک انتہای محترم اور شفیق آغای نے ایک وڈیو شئیر کی ۔۔۔ ایف نائن پارک اور آرٹس گیلری کے سامنے سرنگوں، سر اُٹھانے، زباں چلانے، نعرہِ حق لگانے سے معذور مرغا بنے ہوے فائبر کے انسانی مجسمے۔
مجسموں کے تخلیق کار آرٹسٹ جمال شاہ۔
یہ آرٹسٹ جمال والے تو ہوتے ہی ہیں لیکن ان کی جسیات اور قوتِ مشاہدہ بھی کمال ہوتی ہے۔
اور اپنےمحسوسات کو زبان دینا لازوال۔
یہ مجسمے عموما” انسانی مہجوریوں اور خصوصا” پاکستانی عوام کی مجبوریوں کی داستان سمیٹے ہوے ہیں۔
اہنے یہاں عزتِ نفس سستی ترین جنس جسے کبھی بھی، کہیں بھی اور کوی بھی مجروح کر سکتا ہے۔ ننانوے فیصد اس جور کا شکار ۔۔۔ ظالم بھی اور مظلوم بھی ۔۔۔
ملک کے اعلی ترین عہدیدار سے لے یونین کونسل کے جوکیدار تک۔
جہاں ایک ہولیس کانسٹیبل پورے گاوں کو دھر کے آگے لگا لے، جہاں پٹواری سے لے کر عوام کے ٹیکس پہ پرورش پانےوالے لیڈران اور عمال سب ظلم کے عامل اور وقت آنے پر خود ظلم کے شکار۔
یہ کہانی کب تک رگڑی جاے نہیں معلوم۔
انت ہو گیا ہے اس لیے اب اس کہانی کا انت بھی ہونا چاہیے نہیں تو ودیعت پرودگار کسی بھی وقت ہو سکتی ہےآشکار ۔۔
وَاِنْ تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْـرَكُمْۙ ثُـمَّ لَا يَكُـوْنُـوٓا اَمْثَالَكُمْ
اور اگر تم یونہی منہ موڑے رہے تو وہ تمھیں بدل دے گا ایسے لوگوں سے جو تُم جیسے نہیں ہوں گے
سورہ محمد (۳۸)
اختر جنجوعہ
No comments:
Post a Comment