سلام اور دعائیں ۔ ۔ ۔
مملکتِ خداداد، آکاس بیل ۔ سبز باغ ۔ چمگادڑیں ،سوانگ اور امتحانِِ مسلسل۔
عقل کہتی ہے دوباره أزمانا جہل ہے
دل یہ کہتا ہے فریبِ دوست کھاتے جایئے
کچھ نہ سمجھے خدا کرےکوی، نعرے، وعدے، قسمیں اور کذب بیانیاں، "تب سے اب" ۔
پچاس کی دہای ۔۔ سازشیوں کی پذیرای ۔۔جوڑ توڑ اور رسوای ۔۔تعصب، نفرت، دھونس دھاندلی کے نظریہ ضرورتکی آتش سلگای۔ آنے والے طالع آزماوں کے لیے بساطِ شطرنج بچھای۔۔ملک توڑنے کی پہلی اینٹ لگای۔
شازشوں اور ایکسٹینشنوں کے گھوڑے پر سوار پہلا طالع آزما آیا اور نعرہ لگایا۔۔سارے سیاستدان ایبڈو، قوم کی قسمت بنیادی جمہوریت میں مضمر۔ مٹھائیاں، چاپلوسی اور موقع پرستوں کی چاندی۔اور پھر۔۔
غالب نے فرمایا تھا کہ۔۔"تجھے ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا"۔ بادہ خواروں کا دور آیا، رانیاں سر چڑھیںاورہرطرف صدائیں گونجیں، “تو نے او رنگیلے کیسا جادو کیا”۔ ون یونٹ بنا اور ملک دو یونٹ ہو گیا۔
تاشقند معاہدہ ایک راز، روٹی کپڑا اور مکان اس کو جاننے کی کنجی،"بے نظیر" ریاست ہم بنائیں گے۔ پھر مطلق العنانی۔۔خوشامدیوں کا گھیرا اور ملک اوراپناغرق بیڑا۔
اور پھر پکڑنا تو دور ڈان کو سمجھنا ہی ناممکن۔۔مسکراہٹ، سرمہ، مذہب کی ردا اور کوڑوں کا تڑکہ۔۔اگر ملک میںاسلامی نظام چاہتے ہو تو میں صدر اور اگر نہیں چاہتے تو اسلامی ملک میں “تمھارا کیا کام
ہے”؟ خون آشامچمگادڑوں کا داخلہ اور ایسا تسلط کہ ’بات بناے نہ بنے‘۔
پاکستانی روایتی طور پر "مظلوم (صحیح یا بناوٹی)" کے ساتھ کھڑے ہونے والے لوگ ہیں۔بدقسمت کریش کے بعد لوگوں نے ستتر والی پارٹی کو پارٹی کے لئے بلا لیا لیکن پارٹی جلد ہی اختتام پذیر ہو گئی۔
مشن پورا کرنے کے لئے روحانی اولادِ مردِ مومن کو آی جے آی کی گاڑی پر سوار کیا گیا۔ روحانی مشن کا تو پتہ نہیں لیکن اثاثے لاکھ گُنا، پانامے، پاجامے، اقامے اور پھر مجھے کیوں نکالا سے ہوتا ہوا ووٹ کو عزت دیتے ہوا مشن بدیس جا بسا۔
جس کو بڑے سیانے نےسمجھا تھاکہ ’نہ کوی آگے نہ پیچھے‘ اُس نے سات انقلابی نکات سے سفر شروع کر کے چاچا وردی لاندھا کیوں نہیں تک کا انقلابِ رنگین مزاج، سُر سنگیت کے ساتھ ختم کیا۔
این آر او ون۔۔وصیت کا چمتکار۔۔اور پھر دھن دھنا دھن۔
خادموں کا دورِ نو،لٹ گیا بچا تھا جو۔۔ماڈل ٹاون، ڈان لیکس، پانامہ سویپس، میڈیای ڈان کیوٹے اور لانچ آف خالوی ڈاکٹر ڈائن طرہِِ امتیاز۔
دودھ کی نہریں بہنے سے لے کر “اللہ واسطے لوٹی ہوی آدھی رقم ہی واپس کر دو تاکہ مہنگای ختم ہو نہیں تو قوم ہور چُوپتی رہے گی”، تک کا سنہری خوابِ خراب اور سَراب۔۔مُک گیا تھا سب کچھ، لیکن سائفر آگیا اور کایا پلٹگئی۔بھلا ہوتعلیم اور سوشل میڈیا کا کہ نوجوان نسل نے انگڑای لی۔ اب بھیسمجھ آگئی توٹھیک ورنہ مٹے نامیوں کےنشاں کیسے کیسے۔
ڈاکٹر ڈائن نے نیا سنٹر آف آرک ریکارڈ کیا، نئی ڈیفلیکشن اور ایلیویش لگای، آزمای ہوی میچ فکس کرنے والی ٹیم لگای۔۔کی بربادی اور پای جگ ہنسای۔
کوشش اب بھی یہی کی جا رہی ہے کہ انگڑای لیتی ہوی قوم کو پھر سے سلایا جاے اس لیے منشا ہے کہ دھیرے دھیرے چلا جاے شاید بھڑکنے والی شمعیں بجھ جائیں تاکہ گلیاں ہو جاون سنجیاں وچ "مرزا" یار پھرے۔
نہ جانے شاعر نے کیوں اور کس کے لیے کہا تھا۔۔
رنگ محفل چاہتا ہے اک مکمل انقلاب
چند شمعوں کے بھڑکنے سے سحر ہوتی نہیں
Akhtar N Janjua
http://anjanjua.blogspot.com
https://twitter.com/IbneNawaz
No comments:
Post a Comment