۔ ۔ ۔ ۔ آخر کب تلک ۔ ۔ ۔ ۔
ایسے ہی ایک دن جلال الدین شاہ خوارزم نے بیٹھے بیٹھے سوچا ۔۔۔ آخر کب تلک ۔۔۔۔ اور پھر ۔ ۔ ۔ لیکن چھوڑیئے ۔ ۔ ۔ ۔
چیف جسٹس سندھ کا بیٹا ماشا اللہ فوج نے بازیاب کرا لیا ۔۔۔
عدالت کے احاطہ کے اندر کچھ پکڑے گئے اور کوئ بھاگ گیا ۔ ۔ ۔
مفتی بھی شاملِ تفتیش ۔ ۔ ۔ ۔
کسی کا نام نکل گیا اور کسی کا کام بن گیا ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ۔ ۔
ایک دفعہ پھر چھوڑیئے ۔۔ ۔ ۔ ۔ اور سوچنے والوں کی بات کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سوچنے والے بھی عجیب ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ صدیوں کا سفر چند الفاظ میں طے کر لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور الفاظ میں ایسی آفاقیت کہ صدیوں پر محیط ۔ ۔ ۔ ۔
یہ اپنے حضرت اکبر الہ آبادی رح کو ہی دیکھ لیجیے ۔ ۔ ۔ ۔ ایک صدی کے قریب پہلے کیا فرما گئے ۔ ۔ ۔ ۔
ایسے ہی ایک دن جلال الدین شاہ خوارزم نے بیٹھے بیٹھے سوچا ۔۔۔ آخر کب تلک ۔۔۔۔ اور پھر ۔ ۔ ۔ لیکن چھوڑیئے ۔ ۔ ۔ ۔
چیف جسٹس سندھ کا بیٹا ماشا اللہ فوج نے بازیاب کرا لیا ۔۔۔
عدالت کے احاطہ کے اندر کچھ پکڑے گئے اور کوئ بھاگ گیا ۔ ۔ ۔
مفتی بھی شاملِ تفتیش ۔ ۔ ۔ ۔
کسی کا نام نکل گیا اور کسی کا کام بن گیا ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ۔ ۔
ایک دفعہ پھر چھوڑیئے ۔۔ ۔ ۔ ۔ اور سوچنے والوں کی بات کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سوچنے والے بھی عجیب ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ صدیوں کا سفر چند الفاظ میں طے کر لیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور الفاظ میں ایسی آفاقیت کہ صدیوں پر محیط ۔ ۔ ۔ ۔
یہ اپنے حضرت اکبر الہ آبادی رح کو ہی دیکھ لیجیے ۔ ۔ ۔ ۔ ایک صدی کے قریب پہلے کیا فرما گئے ۔ ۔ ۔ ۔
بِناے ملت بگڑ رہی ہے، لبوں پہ ہے جان، مر رہے ہیں
مگر طلسمی اثر ہے ایسا کہ خوش ہیں، گویا ابھر رہے ہیں
اِدھر ہے قومِ ضعیف و مسکیں، اُدھر ہیں کچھ ’رہنمایانِ’* خود بیں
یہ اپنی قسمت کو رو رہی ہے، وہ نام پہ اپنے مر رہے ہیں
کٹی رگِ اتحادِ ملت، رواں ہویئں خونِ دل کی موجیں
ہم اس کو سمجھے ہیں آبِ صافی، نہا رہے ہیں، نکھر رہے ہیں
No comments:
Post a Comment