وفاداری بشرطِ اُستواری اصلِ ایماں ہے
کے کانوں پرگنتی کے کئی سالوں تک نیند مسلط کردی”۔
اور غار کےمنہ پر ایک وفادار کُتا، اگلی ٹانگیں پھیلاے ہوے چوکیداری پر معمور۔
بھوک، پیاس، موسمی تغیرات ، کسی مجبوری، مہجوری کو در خود اعتنا نہ سمجھا - وفا کا پتلا لوہے کی
دیوار۔ نہ جانے کب سانسوں کی ڈور کٹ ہو گئی ہو گی۔ تین سو نو برس اللہ نے وہیں محفوظ کیا
اور قرانِ مجید میں ذکر کر کے وفا اور نبھا کی اہمیت کو بھی امر کر دیا۔
مجھے ذاتی طور پر “کُتوں” سے کبھی اُنسیت نہیں رہی بلکہ دوری کو ہی محفوظ جانا۔ چند سال پہلے ایک نرم سا روی کا گولہ گھر میں آ نکلا، میں نے کہا فورا نکالو لیکن بچے اور نواسہ ضد کرنے لگے کہ رکھنا ہے، مجبوراْ اجازت دے دی۔ بچوں نے ایک اور تاریخی وفادار کُتے کے نام پر اس کا نام بولٹ رکھ دیا جو کہ اب پیار سے بولٹو ہو گیا ہے۔ انجکشن لگواے اور تربیت کے لیے بھیج دیا۔ واپس آیا تو ایسے ملا سب سے جیسے کوئ سالوں کا “وراگا” ہو۔ کچھ بڑاہوا تو پتہ چلا کہ کُوچی ہے، آواز گونجدار اور دیکھنے میں خونخوار لیکن اصل میں وفا اور پیار ہی پیار۔ فیصلہ ہوا کہ گاوں بھیج دیا جاے، رکھوالی کرے گا۔ گاوں گئے ہوے بھی سال ہو گیاہے لیکن اب بھی ہم میں سے کوی گاوں جاے تو اسکی خوشی دیدنی ہوتی ہے، اچھلتا ہے، کودتا ہے، لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے، پاوں پر سر رکھ کر لیٹ جاتا ہے ۔ ۔۔۔
یہ صرف وفا، حیا اور نبھا کی کہانی ہے جسے میں بابا بھلے شاہ رح کے ان اشعار پر ختم کرتا ہوں۔
خصم اپنے دا در نہ چھڈدے
بھانویں وجن جُتے، تیتھوں اُتے
بلھے شاہ کوی رخت وہاج لے
نہیں تے بازی لے گئے کُتے، تیتھوں اُتے۔
Akhtar N Janjua
http://anjanjua.blogspot.com
https://twitter.com/IbneNawaz
No comments:
Post a Comment