سلام اور دعائیں
کون ہے جو تند و تیز ہواوں کا رخ موڑ سکے، شاید صدیوں کا سفر در پیش ہے ۔۔۔ کیونکہ ابھی تو کہیں دور دور تک کوی نہیں اور جہاں سے روشنی کی کچھ کرنیں پھوٹتی تھیں ’وہ چراغ بجھ رہے ہیں‘ ۔ ۔ ۔
شبِ جمعہ رات گئے صاحبزادہ سعید الرشید عباسی صاحب نے یہ جانکاہ خبر سنائ کہ خواجہ حافظ حمید الدین زیبِ سجادہ آستانہ عالیہ سیال شریف اپنے خالقِ حقیقی کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔صاحبزادہ نظام الدین صاحب نے بھی خبر کی تصدیق فرما دی۔سب کچھ اللہ کریم ہی کا ہے۔
البقاء للہ وانا للہ وانا الیہ راجعون فصبر جمیل و اللہ المستعان اللھم اغفر لہ وارحمہ و عافہ واعف عنہ وارفع درجاتہ فی الفردوس الاعلی۔ آمین یا رب العالمین
کل جمعتہ المبارک کو ہر رستہ سیال شریف ہی کو جا رہا تھا، محبین و معتقتدین دعاوں اور آنسووں کے نذرانے لے کر ، بہت سارے پہنچے اور بہت سارے بے تحاشا ٹریفک میں پھنس گئے اور پھر واپسی کا سفر ، کوی صبح پہنچا اور کوی ابھی تک رستے میں۔
سیال شریف سے میرا تعلق ساٹھ کی دہای سے ہے جب شیخ الاسلام حضور خواجہ قمر الدین سیالوی رحمتہ اللہ علیہ سے مجھے نسبت کا شرف حاصل ہوا۔ ۱۹۸۱ میں ان کے وصال کے بعدبھی ۲۰۰۴ تک انھیں سے رہا، جب بھی جانا ہوا سیدھا ان کے مرقد پر سلامِ عقیدت اور فاتحہ کا نذرانہ اور واپسی۔ ۲۰۰۴ میں ایک صنعت کار چودھری منصف صاحب نے دورانِ نماز میرے سر پر ٹوپی دیکھ کر کہا کہ ان کی نسبت بھی سیال شریف سے ہے ۔ پوچھا کبھی سجادہ نشین صاحب سے ملاقات ہوی، میں نے کہا کبھی نہیں۔ کہنے لگےایک دفعہ ضرور ملیے اور پھر چند منٹوں کی ملاقات کا سبب بھی وہی بنے۔ اپنے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ دیا اور تلقین کی کہ آنا ضرور خواجہ صاحب بھی تشریف لائیں گے۔ وہ بھی شبِ جمعہ تھی اور ولیمہ اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں۔ دئیے ہوے وقت پہ خواجہ صاھب رح تشریف لے آے، نہ مریدوں کا ہجوم،نہ ہٹو بچو کا شور، نہ گاڑیوں کی قطار، ایک گاڑی، ایک ڈرایئور اور اگلی سیٹ پر خواجہ صاحب۔ سلام دعا کے بعد فرمایا (خالص ماں بولی میں) کہ چودھری صاحب آپ کا حکم تھا حاضر ہو گیا ہوں لیکن میرے لئے حکم یہ ہے کہ شبِ جمعہ اور یومِ جمعہ ہر حال میں مجھے سیال شریف موجود ہونا ہوتا ہے بجز جب میں حرمین شریفیں میں ہوں تو۔ (اتفاق ہے کہ شبِ جمعہ ہی کو جان جانِ آفریں کے حوالے کی اور سیال شریف واپسی ہوی اور جمعتہ المبارک کو سیال شریف میں روزِ قیامت تک اقامہ مل گیا)، نہ تعارف نہ کچھ لیا نہ پیا اور دعاوں اور تحفے کے بعد دس منٹ کے اندر اند روانگی ہو گئی۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوے از راہِ مذاق ڈرایئور کی طرف دیکھتے ہوے فرمایا، شکر اے اج بیلی (عزرائیل علیہ السلام) کدھرے ہور ڈیوٹی تے سن نئیں تے اس بیلی نے تے بھیجن دی کوی کسر نئیں چھوڑی۔ دبئی سے آے ہوے چودھری منصف کے ایک دوست نے احترام، شفقت اور عقیدت پر ایک سوال کر دیا۔ فرمایا احترام لازم ہے، سب کا کیا کرو خصوصا جو بڑا ہو عمر میں، علم میں حلم میں۔ شفقت حق ہے ہر چھوٹے کا جو بھی اپنے سے کسی لحاظ سے بھی چھوٹا ہو، تے عقیدت سمجھن واسطے تینوں کسے بزرگ کول بہنا پیسی۔ اور پھر گاڑی چل پڑی۔
اشتیاق بڑھ گیا اور افسوس بھی کہ ربع صدی گذار دی اور ایک سادگی کے پیکر، حلیم و شفیق بزرگ کی مجلس سے اپنے آپ کو دور رکھا۔
کچھ ماہ کے بعد معلوم ہوا کہ خواجہ صاحب اسلام آباد تشریف لاے ہوے ہیں ، شوق کشاں کشاں وردی میں ہی ایک ساتھی سمیت وہاں لے گیا ۔ خواجہ صاحب سے یہ پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ نہایت شفقت فرمای۔ تعارف کے بعد مسلسل ان کی نظرِ کرم مجھ پر گڑی رہی۔ اچانک فرمایا، بھای بریگیڈیر صاحب وظیفے بہت کرتے ہو بھلا بتلاو تو سہی کیا کیا ورد کرتے ہو۔ میں تو پہلے ہی حیران ہو چکا تھا نہ جانے کیا بولا ہو گا۔ فرمایا کمال ہے اتنے سارے وظائف کر رہے ہو لیکن اپنے مرشد کا وظیفہ ان میں شامل نہیں اور ساتھ ہی بتلا دیا۔اور پھر اچانک ہی جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوے۔ میں اور کرنل علی زمان صاحب بھی مبہوت و حیران واپس ہوے۔
پھر شقتوں کا لامتناعی سلسلہ شروع ہوا اور عجیب و غریب واردات کا بھی۔ ننگے پاوں وہ نہیں چلنے دیتے تھے ، لنگر کے لئے بھی کچھ پیش کیا تو انکار ۔ نیچے بیٹھنے پر زور سے آتی تھی ایک للکار ۔۔ کرسی پر بیٹھو میرے کریم شیخ کے مرید ہو۔
میں کرسی پیچھے کر لیتا تھا ایک دفعہ کوی مرید پانچ کلو مٹھائ کا ڈبہ لے کر آیا مصاحبین نے پکڑ لیا۔ شفقت بھرے غصے میں فرمایا، یہ تمھارے لئے نہیں بریگیڈیر صاحب کے لیے ہے اِن کو دو۔ میں نے عقیدت سے گود میں رکھ لیا۔۔۔ عجیب بات بن دیکھے فرمایا بریگیڈیر صاحب سیال شریف کی عجیب بات ہے کہ یہاں چوری نہیں ہوتی میں نے ڈبہ آہستگی سے ساتھ والی کرسی پر رکھ دیا۔ تھوڑی دیر بعد ایک شخص اندر آیا اور کہا حضور یہ سو روپے باہر پڑے تھے میں نے بہت پوچھا کوی لینے والا نہیں۔ فرمایا توں کتھوں آیاں اے اُس شخص نے اپنی جگہ کا نام بتایا ۔۔۔ فرمایا کوی نہیں لیتا، تو جا یہ تیرا ہوا کرایہ دینا اور اپنے پیسوں سے بچوں کے لئے کوی شے لے لینا۔
ایک دفعہ اور یوں ہی بیٹھے تھے کہ لوگ ایک غیر مسلم کو لے آے کہ مسلمان کرنا ہے۔ غصہ فرمایا اور کہا ہٹ جاو اس شخص کو پاس بلایا اور کہا تجھے مارا ہے ان لوگوں نے؟ زبردستی مسلمان کر رہے ہیں؟ وہ رو پڑا کہا نہیں حضور میں دل سے مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ اپنے ایک مصاحب کو کہا انھیں اکیلا لے جائیے، کھانا کھلائیے اور پھر پوچھیے من سے ہوں تو وضو کروا کر لے آئیے۔
ایک دفعہ میرے پاس ایک شخص راولپندی آے اور کہا کہ آپ کو ایک مجذوب سے ملوانا ہے، اٹھارہ ہزاری روڈ پر جوہر آباد سے اسی میل آگے ست شاہانی گاوں میں بیٹھتا ہے۔ میں نے کہہ دیا مل لیں گے۔ کچھ دن بعد مجھے ایک انسپکشن کے لئے سرگودھا جانا تھا، میں نے دونوں بیٹے بھی ساتھ لئے اور رات کو سرگودھا میس میں پہنچ گئے۔ صبح انسپیکشن کی اور سیال شریف چلے گئے وہاں گئے تومعلوم ہوا کہ خواجہ صاحب نمازِ ظہر کے بعد سرگودھا گئے ہیں۔ فون پہ بات ہوی تو فرمایا مجھے ملے بغیر نہ جانا انتظار کرو یا سرگودھا جیل روڈ فلاں جگہ آ جاو۔ میں سرگودھا پہنچ گیا۔ بہت پیار ملا اور باتوں باتوں میں کہا یہ مجذوبوں کو نہیں ملنا چاہیے عملی زندگی تج ہو جاتی ہے۔ میں ہنس دیافرمایا کیوں ہنس رہے ہو ۔۔۔ میں چپ رہا۔ اجازت مانگی تو اصرار کے بعد اجازت دی اور میرے بڑے بیٹے عبداللہ محمد ذید سے کہا بیٹا گُڑ کی طرح میٹھے ہو جاو۔ نہ جانے کیسے حضرت کو معلوم ہوا تھا کہ وہ بے حد غصیل ہے۔
ایک دفعہ پھر جا رہے تھے تو گھر سے کہا گیا کہ بچوں کے ماموں کو ساتھ لے جائیے اور اللہ کریم کے حضور حضرت صاحب سے دعا کروائیے گا کہ یہ نمازی ہو جاے۔ اُسے کہا تو وہ کہنے لگا میں کیوں جاوں سیال شریف میر ا پیر خانہ نہیں ہے ۔ لیکن پھر جاتے ہوے گاڑی میں بیٹھ گیا۔ جمعہ کا دن تھا ہم پہنچے تو وقت ہو گیا تھا لیکن پھر بھی مصاحبین سے کہا دوازہ کھول کر بریگیڈیر صاحب کو اپنے شیخ رح کے ساتھ ملاقات کروا دو باقی نماز کے بعد۔ جب اجازت چاہی تو میرے ساتھ سب کو سامنے بٹھا کر پیار کیا، دعاہیں دی اور جب بچوں کا ماموں سامنے آیا تو عجیب بات فرمای ۔۔۔ ’بھای نماز زبردست شے ای، انج کر صرف پندرہ دن لگاتار پڑھ تے فیر مینوں دسیں کہ کے ہویا‘۔ وہ دن اور آج کا دن سالوں گذر گئے نماز جاری ہے۔
ایک دفعہ میں نے کیا کہ میں فتوحاتِ مکیہ اور فصوص الحکم لایا ہوں پڑھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا استاد ڈھونڈھنا پڑے گا۔ مجھے بڑھاپے سے لڑنا ہو گا اور تمھیں باقی کام چھوڑنے پڑیں گے۔ یہ کتابیں پڑنا بڑا مشک کام ہے۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سناوں ۔ ۔ ۔
دو جولای ۲۰۱۸ کو عمران خان صاحب سیال شریف حاضری دینا چاہتے تھے۔ ھضرت صاحبِ فراش تھے۔ صاحبزادگان نے بتلایا کہ حکم ہے کہ آپ میزبانوں میں ہوں گے اور جو چند ایک حضرات خواجہ صاحب رح کے پاس دورانِ ملاقات ہوں گے ان میں آپ بھی ہوں گے۔ اور وہاں لی گیئ ایک تصویر لاکھوں کی تعداد میں چھپی۔ یقین ہے تب دعا کے خواستگار اور آج کے وزیر اعظم صاحب کو حضرت کے وصال کا پتہ لگا ہو گا اور انھوں نے دلی تعزیت بھی کی ہوگی۔
دعا ہے کہ اللہ کریم خواجہ صاھب رحمتہ اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں اعلی ترین درجات سے نوازے، بسماندگان کو صبرِ جمیل اور اجرِ عظیم عطا فرماے اور یہ توفیق بھی کہ وہ اپنے پرکھوں کے طریق پر چلیں اور شمعیں نور و بصیرت کی یوں ہی فروزاں رہیں۔
آمین بجاہِ سید المرسلین، رحمتہ العالمین، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ وسلم۔
AKHTAR N JANJUA
http://anjanjua.blogspot.com
http://www.facebook.com/akhtar.janjua
https://twitter.com/IbneNawaz
https://www.youtube.com/channel/UCcWozYlUgu-bkQU_YcPoxTg?view_as=subscriber
https://www.pinterest.com/akhtarjanjua
https://www.linkedin.com/in/akhtar-janjua-90373825
No comments:
Post a Comment