سلام اور دعایئں
پاکستان اپنوں کی کارستانیوں، غیروں کی ریشہ دوانیوں اور ‘عاقلوں’ کی مہربانیوں سے جس بے
یقینی کی کیفیت اور امڈتےاندیشوں سے دو چار نظر آ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُس پر ضرورت تو تھی کہ ڈفلیاں رکھ کر سر اور دل جوڑے جائیں، کوہتاہیوں کا اقرار بھی کیا جاے اور تصحیح پر اصرار بھی کیا جاے۔
لیکن ۔ ۔ ۔
برا ہو خود غرضانہ رویوں اور احمقانہ سوچ کا کہ تقریریں اور تحریریں ‘اندر’ ہوں یا ‘باہر’ یہ بتا رہی ہیں کہ:
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے ۔۔۔
اور اطہر شاہ خان کے مصداق ۔ ۔ ۔
میں نادہندہ ہوں بنک تک جانتے ہیں جیدی
تمہارا قرضہ بھی کھا رہا ہوں تو میری مرضی
اور بابا بوٹا مرحوم ایک ماہیا گاتا تھا جو کہ بقول مشتاق یوسفی صاحب کے ‘آدھا اخلاق سے گرا
ہوا تھا اور آدھا وزن سے’، لیکن آج کے حالات کا صحیح ترجمان
کوی کوٹھے تے اُٹھ بیٹھے
جس گھر وڑئیے سارے ٹبرے آں دھا پوئیے۔ ۔ ۔
اب کوٹھے پر اونٹ کیسے بیٹھ سکتا ہے ۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے یہاں ‘کوٹھوں پر بیٹھے ہوے ہیں’
AKHTAR N JANJUA
janjua17686.wordpress.com
No comments:
Post a Comment