AKHTAR N JANJUA

Allah created humans from a male and a female and made into tribes and nations for identification. However the most righteous is the most honoured. No Arab has any superiority over a non-Arab nor is a White any way better than a Black. All created beings are the decendants of Adam and existence of Adam sprang from dust. hence all claims to superiority and greatness, all demands for blood or ransom and all false traits or trends of rule are false.

Breaking

Thursday, April 6, 2017

سیرتِ نبی صلی اللہ علیہِ وسلم سے ایک صفحہ !

انصاف ’تب‘ اور انصاف ’اب‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

قانونِ اللہ کریم میں سزا اور جزا کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ ۔ عدل کے تمام تقاضوں پر اترتا ہوا انصاف اور اُس کی مکمل عمل داری اُس کا طرہِ امتیاز ۔ ۔ ۔

سخت قحط سالی کے زمانے میں ایک صحابی عباد بن شرجیل رض نے ایک باغ سے خوشہ توڑا، خود کھایا اور باقی گھر والوں کے لیے کپڑے میں باندھ لیا ۔ ۔ اتنے میں باغ کے مالک آ پہنچے، پکڑا، مارا اور رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت مین پیش کر دیا ۔۔ ۔ ۔ کیس کی ’سماعت‘ کے بعد بجاے چور کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدعی سے پوچھا :

"یہ تو ان پڑھ اور مفلس ہے آپ نے اس کے اندھیرے اور بھوک کو دور کرنے میں کتنا حصہ ڈالا؟"

پھر فیصلہ سنایا ۔ ۔ ۔ 

اُن کا کپڑا اور مال واپس دلوایا ۔ ۔ ۔
اور ایک اونٹ کے وزن کا غلہ اُن کے گھر بھجوایا ۔ ۔ ۔

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ انہی منصفِ عظیم نےبغیروجہ کے چوری کی مرتکب ہونے والی ایک امیرعورت کے لیے آی ہوی سفارش یہ کہہ کر رد فرما دی تھی کہ اگر میری بیٹی بھی یہ جرم کرے گی تو یہی سزا پاے گی ۔ ۔ ۔ سبحان اللہ

معلوم ہوا کہ انصافِ دینِ الہی کسی کا چہرا، کسی کا شجرہِ نسب یا کسی کا اشارہِ ابرونہیں دیکھتا، نہ ملاقاتوں کا اثر لیتا ہے نہ کالوں سے متاثرہوتا ہے، نہ دولت پہ بکتا ہے نہ جاہ و حشمت کے آگے جھکتا ہے۔۔۔ بالاتری یا کم تری ایک ہی باٹ میں تلتی ہے۔

"یہ ’تب‘ ہوتا تھا اور ایمان و صدقِ نیت ہو تو ’اب‘ بھی ہو سکتا ہے ۔۔۔۔

لیکن ’اب‘ کیا ہوتا ہے ؟؟؟

غریب مرنے کے اٹھارہ سال بعد پھانسی کی سزا سے بری ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ روز مرتا ہے اور روز لٹتا ہے ۔ ۔ ۔
اوردوسری طرف ۔ ۔ ۔

اربوں کھربوں لوٹ کر کھا لیے جائیں ۔ ۔ ۔
 

عزتیں روز تار تار ہوں ۔ ۔ ۔
بستیوں کی بستیاں اُجاڑ دی جایئں ۔ ۔ ۔
بھرے بازاروں، چوکوں، عبادت گاہوں، درس گاہوں میں سینکڑوں بے گناہوں لاچاروں کو بھون دیا جاے ۔ ۔ ۔ ۔


قانون بے چارہ،
دانتوں میں انگلی دباے،
شرم سے سر جھکاے،
بے بسی سے منہ لٹکاے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 


با اثر مجرموں سے پوچھتا ہے ۔ ۔ ۔ "بتا تیری رضا کیا ہے"

No comments: