AKHTAR N JANJUA

Allah created humans from a male and a female and made into tribes and nations for identification. However the most righteous is the most honoured. No Arab has any superiority over a non-Arab nor is a White any way better than a Black. All created beings are the decendants of Adam and existence of Adam sprang from dust. hence all claims to superiority and greatness, all demands for blood or ransom and all false traits or trends of rule are false.

Breaking

Friday, August 14, 2015

سدا سلامت پاکستان ۔ تا قیامت پاکستان

سلام،  آداب،  بے لوث دعاوں اور پر خلوص نیک تمناوں  کے ساتھ   کرہِ زمیں پر بسنے والے ہر پاکستانی کو ’یومِ آذادی‘  مبارک ۔

(قومی دن، قومی زبان ۔ اددو نہ سمجھنے والوں سے معذرت ۔)


کہتے ہیں کہ پاکستان عطیہِ خداوندی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بالکل صحیح ہے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس تھوڑا سا غور اور یقینِ کامل کہ واقعی  بخششِ الٰہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 


تینتیس کروڑ سے زیادہ خود ساختہ خداوں کا مسکن

 لاکھوں قبائل کی آماجگاہ

 ہزاروں زبانوں کی پناہ گاہ

 صدیوں پرانی تہذیب

 ذات پات اور تعصبات کا ھمالیہ

 مسلمان اقلیت اور بکھرے ہوے

 پھر بھی لے کے رہے پاکستان ۔ بن کے  رہا پاکستان




پاکستان اسی ربِ رحیم کا عطیہ ہے جو بار بار اپنے کلام میں غور و فکر کی ترغیب دلاتا ہے ۔

فکر و خیال صحیح ہو جایئں تو معجزے رونما ہوتے ہیں 

 فکر و خیال کج رو ہو جایئں تو عذابِ الٰہی نمودار ہوتا ہے؛ 

کبھی خوف و دہشت کے روپ میں

 کبھی بدعنوانی اور بدیانتی کی شکل میں

بد ترین حکمران مسلط ہوتے ہیں اور ظالم عمالِ حکومت جینا دوبھر کر دیتے ہیں

 کبھی واقعہِ قصور رلا دیتا ہے اور کبھی پشاور صدیوں کا غم دے جاتا ہے ۔


دائرہِ فکر وسیع ہو تو ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، اپنی ذات پر مرکوز ہو کر رہ جاے تو بہکتے دیر نہیں لگتی ۔


پاکستان ایک نظریے کی بنیاد پر بننے والا پہلا اسلامی ملک؛

 جہاں میثاقِ مدینہ جیسا قانون ہونا تھا

 جہاں رواداری و برداشت کا سنہری دور ہونا تھا

 جو ایسے با ایمان لوگوں کا مسکن ہونا تھا جن کے متعلق علامہ نے فرمایا تھا

  
مومن کی یہ پہچان کہ گم اِس میں ہیں آفاق


  وہ مومن جنہیں ظالموں کے لیے جبار وقہار ہونا تھا اور مظلوموں کے لیے رحیم و کریم

 جہاں الطاف و کرم اور شرافت کا دور دورہ ہونا تھا ۔

 شومیِ قسمت یہاں ذر کے ساتھ جڑی ھویئں ’ایمان علی‘ بھی ہیں شریف اور الطاف بھی لیکن صفات نہیں ۔



پاکستان جسے امن و امان کا گہوارہ ہونا تھا آج بدامنی اور فتنوں میں گھرا ہوا ہے؛

 امن  و امان  اور اخوت و محبت کی فضا، دماغ کی جلا اور دل کی صفائ سے قائم ہوتی ہے ۔

 اسی لئے  قرانِ کریم نے بعثتِ نبویؐ کے مقاصد یہ بتاے کہ قلب و ذہن کا تزکیہ و تطہیر کی جاے، کتابِ 
مبین سکھای جاے اور حکمت و دانائ بتائ جاے ۔

 کیا ہم ایسا کر رہے ہیں ؟



محض بیانات سے حالات ٹھیک نہیں ہو سکتے؛

 دانشمندی یہ ہے کہ حالات کے اسباب و علل پر غور و فکر کیا جاے اور ان کا خلوصِ دل سے سدِباب کیا جاے ۔ 

اس کے لئے بڑی پامردی، بڑی استقامت، بڑا خلوص، بڑی دلسوزی اور بڑی دلداری کی ضرورت ہے


سرکارِ دو عالم ؐ کی سیرتِ پاک ہمارے سامنے ہے؛

 آپؐ نے برایئوں کا سدِباب کیا

 پوری طرح سرکوبی کی

عدل و انصاف کے رستے کی ہر دیوار گرا دی

اپنے پرائے، امیر غریب، گورے کالے، عربی عجمی کے لئے مساوات قائم کی اور ہر تفریق کو مٹا ڈالا ۔


 ہمارا حال عجیب ہے، ہم خود ہر قانون سے بالاتر ہیں، ذات اور خاندان سے آگے کوئ اور موجود ہی نہیں

 جرم ہم کریں تو قابلِ استثنا، دوسرے کریں تو ہم سیخ پا

 علاج اوروں کے لئے، ہم خود پرہیز کے بھی قائل نہیں ۔


جناب پرہیز شرطِ اول ہے

ہر منزل ہر شعبے میں،

بغیر پرہیز علاج ممکن نہیں ۔

آذاد پاکستان کے آذاد حکمرانو اور رعایا؛

 آذادی نے اگر پنپنا ہے تو عدل و انصاف اور معقول پابندیوں کے ساتھ ہی ایسا ہو پاے گا

 رعایا تو پہلےہی مجبور و مقہور ہے، اے رہنمایانِ ملت ہمت کیجئے بسم اللہ اپنے سے کیجئے


 حکیمانہ فکر کے ساتھ پرہیز شروع کیجئے

اپنے کو احتساب کے لئےچن لیجیے

 دولتوں کے ڈھیر بدیس سے دیس لے آیئے

 عدل و انصاف کے علمبردار بن جایئے ۔

صحتِ ملی آپ کے ہاتھ مں ہے ۔


پاکستانی عوام کے لیئے ۔ ۔ ۔ ۔ 

اٹھو پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے

اپنے محسوسات، دکھوں، المیوں،  جگ بیتی اور محرومیوں کا نہ صرف اظہار کرو بلکہ حق مانگو اپنا ۔

تم ہی اصل ہو اس عطیہِ الٰہی کا ۔ 


مزید انتظار کا وقت شاید نہیں رہا ۔



 یومِ آذادی مبارک ۔۔۔۔۔۔

 سدا سلامت پاکستان ۔۔۔۔ تا قیامت پاکستان



ڈاکٹر بابر اعوان کے آج کے کالم میں  جالب مرحوم کے یہ اشعار بہت اچھے لگے انہی پر خدا حافظ ۔۔۔۔

  
اصول بیچ کے مسند خریدنے والو
نگاہِ اہلِ وفا میں بہت حقیر ہو تم

وطن کا پاس تمہیں تھا، نہ ہو سکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو، بے ضمیر ہو تم





اختر نواز جنجوعہ


No comments: